وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اور صوبائی وزیر برائے تحفظِ ماحول و موسمیاتی تبدیلی مریم اورنگزیب نے ذاتی دلچسپی لے کر پنجاب سے سموگ کے خاتمے کے لیے گزشتہ چند ماہ کے دوران ایسے اقدامات کیے ہیں جن کو بجا طور پر ہر سطح پر سراہا جانا چاہیے۔ گزشتہ برسوں کے دوران سموگ پورے صوبے کے لیے ایک عذاب بنا رہا ہے۔ اس سے کاروبارِ زندگی بری طرح متاثر ہوا اور بیماریوں کے پھیلاؤ کی وجہ سے لوگوں کی صحت پر برے اثرات بھی مرتب ہوئے۔ اس سال پنجاب میں فضائی آلودگی اور سموگ سے نمٹنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔ اکتوبر سے فروری تک پنجاب میں ڈیرے ڈالنے والی سموگ کا بڑا سبب مختلف ذرائع سے ہونے والا وہ کاربن کا اخراج ہے جو صرف پنجاب یا پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیئے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ 2020ء کے اعداد و شمار کے مطابق، پنجاب میں کاربن کا سالانہ اخراج سات ہزار کلو ٹن سے زائد ہے جس میں ٹرانسپورٹ کا 39 فیصد اور صنعتوں کا 24 فیصد حصہ ہے، یعنی صرف یہ دو عناصر مل کر ساٹھ فیصد سے زائد کاربن کے اخراج کا باعث بن رہے ہیں۔ پنجاب میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد دو کروڑ سے زائد ہے جن میں سے 30 فیصد لاہور میں ہیں۔ صنعتوں میں سے صرف 10 فیصد ان علاقوں میں ہیں جنھیں حکومت نے صنعتوں کے لیے مخصوص کیا ہوا ہے۔ 2024ء میں وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی قیادت میں صوبائی حکومت نے سموگ پر قابو پانے کے لیے اقدامات کا آغاز مارچ میں کیا جب سموگ کا موسم ابھی بہت دور تھا۔ اس کام کی ذمہ داری صوبائی وزیر مریم اورنگزیب کو سونپی گئی۔ پہلے مرحلے میں کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور تمام متعلقہ محکموں اور اداروں کو قابلِ عمل منصوبے بنانے کا کام سونپ دیا گیا۔ دوسرے مرحلے میں اقدامات کے سختی سے نفاذ پر توجہ دی گئی اور اینٹوں کے بھٹوں اور صنعتوں سمیت ہر اس جگہ کو ٹارگٹ کیا گیا جہاں کاربن اخراج کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔ تیسرے مرحلے میں سموگ کا موسم شروع ہونے پر اسے کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں پنجاب حکومت کا عزم 'سموگ سے پاک لاہور' ہے۔ اس حوالے سے پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو ماحول دوست بنایا جارہا ہے، گاڑیوں میں استعمال ہونے والے ایندھن کے معیار کو جانچا جارہا ہے، صنعتوں کی نگرانی کی جارہی ہے، پودے اور درخت لگانے کی مہم کا آغاز کیا گیا، نگرانی کے مقاصد کے لیے ڈرون اور تھرمل ٹیکنالوجی کو استعمال میں لایا جارہا ہے، اور نگرانی کے لیے کیمرا بردار یونٹ بھی تشکیل دیے گئے۔ علاوہ ازیں، سموگ کے لیے ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے اور گرین پنجاب اور ایکو واچ کے نام سے موبائل اپلیکیشنز بھی تیار کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں 2 اکتوبر یعنی گزشتہ روز تک 12540 صعنتی یونٹوں کا جائزہ لیا گیا اور ان میں سے 4400 سے زائد کو نوٹسز جاری کیے گئے جبکہ 117 کو مسمار اور 594 کو سیل کردیا گیا اور سات کروڑ روپے کے جرمانے کیے گئے۔ اسی طرح، 38528 بھٹوں کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان میں سے 9617 کو نوٹس جاری کیے گئے، 240 بھٹے گرا دیے گئے، 182 کو بند اور ایک ہزار سے زائد کو سیل کیا گیا جبکہ تقریباً نو کروڑ روپے کے جرمانے کیے گئے۔ علاوہ ازیں، تقریباً 76 ہزار گاڑیوں کا معائنہ کیا گیا اور ان میں سے 18 ہزار سے زائد کے چالان کیے گئے جبکہ تقریباً سوا تین کروڑ روپے کے جرمائے کیے گئے۔ مارچ سے ستمبر کے دوران صوبے بھر میں تین کروڑ ساٹھ لاکھ درخت لگائے گئے جن میں سے 48 لاکھ صرف لاہور میں لگائے گئے۔ صوبائی حکومت کی یہ تمام اقدامات تعریف کے قابل ہیں اور ان کے ثمرات آئندہ چند ماہ میں عوام کو دکھائی دیں گے۔
انسدادِ سموگ کے لیے پنجاب حکومت کے مثالی اقدامات
Oct 03, 2024