ایران کا اسرائیل پر میزائیلوں اور راکٹوں سے حملہ

Oct 03, 2024

اداریہ

ایران نے اسرائیل کی جارحیت کا جواب دیتے ہوئے صہیونی ریاست پر سینکڑوں بلیسٹک میزائل فائر کر دیئے۔جس میں 20 اسرائیلی ہلاک ہوگئے۔ایرانی اطلاعات کے مطابق میزائلوں کی تعداد 400  جبکہ امریکی ذرائع کے مطابق 200  اور اسرائیل کے مطابق 180تھی۔ ایرانی پاسداران انقلاب نے کہا کہ اسرائیل نے جوابی کارروائی کی تو دوبارہ نشانہ بنایا جائے گا۔ ایرانی فوج کا کہناہے کہ میزائلوں سے اسرائیل کے فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔ پاسدارانِ انقلاب نے مزید کہا کہ اسماعیل ہانیہ اور حسن نصراللہ کی شہادتوں بدلہ لے لیا۔ایران نے اہم ملکوں کو حملے کے وقت اور حجم سے آگاہی دیدی۔ بتایا گیا ہے کہ میزائلوں کا ہدف اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب تھا۔حملے میں میزائلوں کے علاوہ ڈرون اور کروز میزائل بھی فائر کئے گئے۔اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے کہا ہے کہ اسرائیل پر حملے قانونی، حقیقی اور جائز ردعمل ہے۔
حملے کے دوران مقبوضہ بیت المقدس اور تل ابیب سے درجنوں دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق ایران کی طرف سے فائر کئے گئے متعدد میزائل اسرائیلی گیس تنصیبات پر گرے۔ حملے کے کچھ لمحوں بعد حزب اللہ کی طرف سے بھی راکٹ فائر کئے گئے۔ میزائل حملوں کے دوران اسرائیلی شہروں  تل ابیب اور حیفا میں مسلح افراد گھس گئے۔ تل ابیب  میں فائرنگ سے 8 جبکہ حیفا میں  10 اسرائیلی ہلاک ہوگئے۔  حملے کے بعد عراق اور اردن نے اپنی فضائی حدود بند کر دیں جبکہ پاکستان میں پی آئی اے کے حوالے سے خصوصی ہدایات جاری کی گئیں۔ 
اسرائیل فلسطین جنگ کی ابتدا سات اکتوبر 2023ء  کو ہوئی جس کو اب ایک سال ہونے کو ہے۔اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف سفاکیت اور بربریت کا ہر حربہ اور ہتھکنڈا آزمایا گیا،ظلم کی انتہا کر دی گئی۔اب تک اسرائیلی  حملوں میں 45 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔اسرائیل نے اس جنگ میں دیگر کئی ممالک کو بھی گھسیٹ لیا۔ان میں ایران یمن لبنان،عراق اورشام  شامل ہیں۔ایران کی طرف سے اسرائیل پر دوسری مرتبہ میزائلوں اور راکٹوں کی برسات کی گئی ہے۔اسرائیل نے شام میں ایران کے سفارت خانے پر بمباری کی جس میں دو ایرانی جرنیلوں سمیت 15 افراد شہید ہوئے تھے جن میں مقامی افراد بھی شامل تھے۔ایران کی طرف سے اس کے جواب میں اسرائیل پر میزائل اور راکٹ برسائے گئے تھے۔اب دوسری مرتبہ اسماعیل ہانیہ کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے ایران نے اسرائیل پر یلغار کی ہے۔اسماعیل ہانیہ کو ایران میں اس وقت اسرائیل کی طرف سے شہید کر دیا گیا تھا جب وہ صدر ابراہیم رئیسی  کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے موجود تھے۔ابراہیم رئیسی ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہوئے تھے۔کچھ حلقے اس حادثے کو بھی اسرائیلی سازش قرار دیتے ہیں۔ایران کی طرف سے اب اسرائیل پر اس وقت حملہ کیا گیا ہے جب  اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو لبنان میں ان کے گھر پر بمباری کر کے شہید کر دیا تھا۔یہ حملہ اس دوران ہوا جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس جاری تھا۔اس حملے کے بعد اسرائیل نے بیک وقت  غزہ لبنان شام اور یمن پر حملے کیے۔ان ممالک پر ہونے والے حملوں کے بعد ایران نے اسرائیل پر  حملہ اسماعیل ہانیہ کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے کیا۔اسرائیل نے اپنے رد عمل میں تباہ کن نتائج کی دھمکی دی ہے۔ایران نے اس پر ایسا ہی جواب دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
 اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئترس نے مشرق وسطیٰ کے تنازع میں اضافے کی مذمت کی ہے۔ سیکرٹری جنرل یو این کا کہنا ہے کہ کشیدگی میں اضافہ مشرق وسطیٰ تنازع کو وسیع کر رہا ہے۔ ہمیں جنگ بندی کی شدید ضرورت ہے۔دنیا کے سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے کس کو جنگ بندی کی اشد ضرورت کے بارے میں بتایا جا رہا ہے؟ایسا بیان ان کی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے. جنگ بندی کی متفقہ قراردادیں منظور ہو چکی ہیں۔ اس کے باوجود  اسرائیل جنگ بندی پر تیار نہیں ہے. اسرائیل کی اس ہٹ دھرمی اور پاگل پن پر کیا صرف اقوام متحدہ کو بیان بازی پر ہی  اکتفاء  کرنا چاہیے. فلسطین میں انسانی المیہ بدترین صورت اختیار کر چکا ہے. اسے روکنے کے لئے اقوام متحدہ وہی کردار ادا کرے جو اس نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے قراردادیں منظور  کرکے کیا اور ان پر عمل بھی ہوا. اقوام متحدہ خود کو امریکہ کی کٹھ پتلی ثابت نہ کرے۔ اْدھر وہائٹ ہاؤس نے کہاہے کہ صدر جوبائیڈن نے امریکی فوج کو اسرائیل کا دفاع کرنے کا حکم دیا ہے۔ جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ایرانی حملوں کے بعد اسرائیل کا دفاع کریں گے۔ امریکہ اسرائیل کی مدد کیلئے تیار ہے۔ 
جارحیت کو پڑوسی ملکوں سے ایران تک پھیلا دینا اسرائیل کے لیے امریکہ کی شہ اور پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ایران نے جب شام پر ہونے والے حملے کا جواب دینے کی بات کی تھی تو امریکہ کی طرف سے پہلے یہ کہا گیا کہ امریکہ اسے برداشت نہیں کرے گا۔ بعد میں امریکہ نے اسرائیل کا دفاع کرنے کے بیان پر اکتفاء کیا۔ اب جو بائیڈن دو قدم آگے چلے گئے ہیں۔ جارحیت کا ارتکاب کرنے والے ملک کا دفاع کرنا بھی اسکی ہلہ شیری ہے۔ اب تو اسرائیل کی کھل کر مدد کرنے کا اعلان کیاگیا ہے۔امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہے گا تو فلسطین کے مسئلے کا حل تو کجا دنیا کا امن بربادی سے دو چار ہو سکتا ہے اور تیسری عالمی جنگ کے خدشات بھی عملی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔امریکی شہہ پر گذشتہ ایک سال اسرائیل مسلم ممالک میں جو حشر بپا کر رہا ہے اس سے تیسری عالمی جنگ کی جانب ہی دنیا کو دھکیلا جارہا ہے۔ اگر اب بھی عالمی قیادتوں اور نمائیندہ عالمی اداروں نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو دنیا کی تباہی اب کوئی دْور کا معاملہ نظر نہیں آتا۔

مزیدخبریں