جمہوریت کی گاڑی میں بیٹھے مسافرلفظ جمہوریت سے ناآشنا رہے ہیں۔ لفظ ’’جمہوریت‘‘ ایک دلکش کہاوت کے طور پرعوام کو سبز باغ دکھانے کے طور پر بھی استعمال ہوتاآیا ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اقتدار کے مزے لوٹتی ہیں اور خود ان کے کرداروں میں جمہوریت کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔ جمہوریت کی گاڑی میں سوارمسافر منزل پر پہنچنے کی ہمیشہ ہی امید لگائے رکھتے ہیںمگرملک کی 76سالہ تاریخ میں ستم ظریفی یہ رہی ہے کہ مسافر مل جل کر جمہوریت کی گاڑی کے ٹائروں کو خود ہی پنکچر کردیتے ہیں اورکبھی گاڑی کو راستے میں خود ہی روک دیتے ہیں اور کبھی کسی اور کے ہاتھوں ڈرائیورکو منزل سے دوسری جانب لے جاتے ہیں ،پھر ان قصور وار وں کی نشاندہی بھی کوئی نہیں کرتا بلکہ ان کو چھپانے میں اپنا کردارضرور ادا کرتے ہیں ۔یہ بات اس لئے کہنا پڑ رہی ہے کہ 1947 سے لے کر 2024 تک جو بھی حکومتیں قائم ہوئی ہیں انہوں نے اپنی حکومتوں کو خود ہی مسائل میں مبتلا کرکے خود ہی گرایا ہے جس سے ترقی کا سفرجہاں سے شروع ہوا تھا وہ آج بھی وہیں رکا ہوا ہے ۔اسی وجہ سے شاعر نے کہا تھا کہ ’’ جمہوریت اک طرزِحکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ‘‘
پاکستان میںموجودہ حالات بھی اسی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ کسی بھی سیاسی جماعت میں کہیں بھی متوازی سوچ کوپنپنے نہیں دیا جاتا ۔حکومت کے لئے معیشت کی درستگی کا معاملہ بڑا چیلنج ہے ،وہیں دوسری طرف آئینی ترمیم بھی اک سوالیہ نشان محسوس ہورہا ہے ۔ ایک کے بعددوسرے نئے انتخابات کا دبائو اور اتحادیوں کے ساتھ روابط میں تلخی جیسے بڑے چیلنجز بھی موجود ہیں اور اس سے بڑھ کر حکومت کی لاکھ کوششوں کے باوجود لوگوں کے سر پر بانی پی ٹی آئی کا جنون ابھی تک سوار ہے اس کو کم نہیں کیا جاسکا،مگر ان تمام چیلنجز کا حکومت کے مشیروں کے پاس فوری حل نکلتا نظر نہیں آرہا ۔تو پھر سوال یہ ہے کہ جمہوریت کی گاڑی اس بوجھ کو ساتھ لیکر منزل کی جانب فراٹے بھر سکے گی؟ ۔موجودہ حکومت کوئی پہلی بار اقتدار میں نہیں آئی وہ اس سے پہلے کئی حکومتوں میں کئی ادوار گزار چکی ہے مگر سابقہ حکومتوں میں مسائل کی نوعیت مختلف اور قدرے آسان ہوتی تھی ،8ماہ کے عرصے میں حکومت ایک روز بھی سکھ کا سانس نہیں لے پائی،پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ہینڈلرزآئے روز حکومت کی کارکردگی کو ہدف تنقید بنارہی ہے۔حکومت کی سخت پالیسیوں،مختلف انتظامی اور حکومتی پابندیوں کے باوجود پی ٹی آئی اپنے جلسے کرنے میں کامیاب ہورہی ہے اگرچہ وہ اپنے جلسوں میں وہ عوامی طاقت کا اتنا مظاہرہ تو نہیں کرسکی جو ماضی میں اس کی پہچان رہی ہے۔ ’’آئینی ترمیم جو اس وقت موجودہ حکومت کے گلے میں ہڈی کی طرح پھس گئی ہے نہ وہ نگل سکتی ہے نہ وہ اگل پارہی ہے ،جن مشیروں نے آئینی ترمیم کے معاملے کوہلکا لیا اور آسان ہدف کہہ کر یہ کام شروع کیا کہ وہ یہ ترمیم پارلیمنٹ سے باآسانی منظور کروالیں گے وہ بھی اب منہ چھپاتے پھر رہے ہیںکیونکہ چیزیں ان کی دسترس اورسوچ سے باہر ہورہی ہیں ،اس معاملے میںحکومت اور اس کے اتحادیوں کوسب سے زیادہ جھٹکامولانا فضل الرحمان نے دیا ہے جو کبھی کے پی ٹی آئی کی قیادت سے مسلسل رابطوںمیں نظر آئے اور کبھی تندوتیز بیانات دیتے رہے کہ یہ پارلیمنٹ جعلی ہے ، نئے الیکشن فوری کروائے جائیں اور آئینی ترمیم کرنا ناانصافی کے مترادف ہوگا وغیرہ وغیرہ۔پاکستان کی جمہوری تاریخ میں حکومتی اتحادیوں کا کردرا توہمیشہ سے رہا ہے کہ وہ حکومت کو مشکل وقت میں سہارا دیتے آئے ہیں چاہیں حکومت کسی بھی جماعت کی ہو اور ان کے درمیان اختلافات سالوں گزرنے کے بعد شروع ہوتے تھے ،مگر موجودہ حکومت کے اتحادیوں نے حکومتی رویوں کی شکایات مہینوں میں ہی شروع کردی ہے، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی نالاں ہیں، ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفی کمال نے واضع کیا کہ ہم حکومت سے علیحدہ ہوسکتے ہیں اور اسمبلیوں سے اپنے استعفی بھی دے سکتے ہیں، پنجاب کے گورنر سلیم حیدر بھی وائس چانسلرز کی تعیناتی کے معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔بعض سیاسی لوگوں کاماننا ہے کہ طاقتور حلقے بھی حکومتی اقدامات، حکمت عملی پر سوال اٹھا رہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جمہوریت ایسا سیاسی نظام ہے جس میں گڈ گورننس بنیادی تقاضہ ہے، جس جمہوریت میں گڈ گورننس نہ ہو اسے جمہوریت نہیں کہا جاسکتا۔ ہمارے حکمران جمہوری باتیں تو قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کی پیش کرتے ہیںمگرجمہوریت کے جس ماڈل پر پاکستان میں عمل کیا جاتا ہے اس کا نہ تو علامہ اقبال کے جمہوری تصور سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی قائد اعظم ایسا پاکستان چاہتے تھے،اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان میں جمہوری اداروں میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے اسمبلیوں میں اہل افراد کی ہمیشہ کمی ہے ،اس خلاء کو پرکیسے کیا جاسکتا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے سیاسی جماعتیں اتنی مضبوط ہیں کہ وہ اس انسٹی ٹیوٹ سے اہل فراد کوسامنے لاسکیں ؟۔اس کا جواب دھونڈنا مشکل اور پاکستان میں ملنا ناممکن ہی ہے ۔تو کیا موجودہ حالات میں حکومت اپنے آپ کو بااختیار بنا سکتی ہیں تو اس کے لئے حکومت کوسب سے پہلے اپنے ساتھ سیاسی سوچ کے حامل مذاکرات پر یقین رکھنے والے لوگوں کو مکمل متحرک اور بااختیار بنانا ہو گا کہ وہ سب سے پہلے اتحادیوں کے اعتماد پر پورا اتریں اور ان کے ساتھ اپنے سیاسی معاملات کو ٹھیک رکھیں جو وعدہ وعید ان سے کئے گئے ہیں ان پر نظر ثانی کی بجائے ان کو پورا کیا جائے۔ کیونکہ ماضی کے تلخ تجربوں سے یہ بات ضرور سیکھنے کو ملی ہے اورارد گرد ملکوں میں جو جنگی ماحول بن چکا ہے اس میں ملک مزید کسی بحرانی کیفیت کا متحمل نہیں ہوسکتا اور عوام کو بھی نئے سرپرائز پسند نہیں آئیں گے ،تو اس کے لئے ملک کے بڑوں کو ایک جگہ بیٹھنا ہی ہوگا چاہے وہ مسلم لیگ ن کے بڑے ہوں یا پیپلز پارٹی کے بڑے ہوں یا پی ٹی آئی کے بڑے ہوں یا باقی سیاسی جماعتیں ہوں سب کو دل بڑا کرکے ایک جگہ اکھٹا ہونا پڑے گا ،اسی صورت میںملک آگے بڑھ سکتا ہے وگرنہ علامہ محمد اقبال کا شعر ہم پر ہی فٹ ہوگا۔ ’’ وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا‘‘
آئینی ترمیم حکومت کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس گئی
Oct 03, 2024