اسماعیل ہنیہ اور حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد توقعات کے عین مطابق ایران نے اسرائیل پر حملہ کر کے عالمی طاقتوں کو پیغام دے دیا ہے کہ اگر اسرائیل باز نہیں آتا، فلسطین، شام، لبنان اور یمن میں فوجی کارروائی کرے گا تو اس ظلم کا بدلہ لیا جائے گا۔ ایرانی صدر کی طرف سے یہ بتایا جا چکا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد عالمی طاقتوں بالخصوص مغربی ممالک نے ایران کو یقین دلایا تھا کہ اسرائیل طاقت کا استعمال بند کر دے گا لیکن یہ وعدہ نبھایا نہیں گیا۔ ناصرف اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا گیا بلکہ اب تک فلسطین میں ہزاروں بچوں، نوجوانوں، بزرگوں اور خواتین کو شہید کیا جا چکا ہے، فلسطین میں عمارات کو ملبہ کے ڈھیر میں بدل دیا گیا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی یمن اور لبنان کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے کیے زمین تنگ کی جا رہی ہے، عالمی طاقتیں اور عالمی ادارے اسرائیل کا ظلم روکنے کے بجائے ظالم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس مشکل وقت میں امت مسلمہ کی قیادت کو متحد ہو کر جواب دینے کی ضرورت ہھ۔ جب تک مسلم امہ کا اتحاد نہیں ہوتا اس وقت تک دنیا بھر میں جہاں مسلمان موجور ہیں یہود و نصاری انہیں نشانہ بناتے ہی رہیں گے۔ امت مسلمہ کی قیادت کو اس اہم پہلو کو جلد سمجھنا ہو گا، اس حوالے سے منصوبہ بندی کرنا ہو گی، جب تک قرآنی آیات اللہ تعالٰی کے احکامات پر عمل نہیں کریں گے۔ ہماری پٹائی ہوتی رہے گی، ہم لاشیں اٹھاتے رہیں گے، کوئی پرسان حال نہیں ہے، اگر متحد نہ ہوئے تو مستقبل میں مزید تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایران نے حملہ کر دیا اس کا جواب تو آنا ہے اور ایران کو پہلے سے زیادہ چوکنا رہتے ہوئے دفاع کو مزید مضبوط بنانے پر توجہ دینا ہو گی۔
ایران نے اسرائیل کی جانب چار سو بیلسٹک میزائل اصفہان، تبریز، خرم آباد، کرج اور اراک سے فائر کیے جس کے بعد مقبوضہ بیت المقدس سمیت اسرائیل بھر میں سائرن بجنے لگے۔ میزائل حملوں کے بعد اسرائیلیوں نے بنکرز میں پناہ لی۔ تل ابیب اور شیرون میں بھی راکٹ گرنے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ میزائل حملوں کے دوران شیلٹرز میں جانے کیلئے بھگدڑ میں کئی افراد زخمی ہوئے۔ اسرائیل کی فضائی حدود بند کر دی گئیں اور ہوائی اڈوں پر موجود تمام مسافروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا۔ ایران نے میزائل حملوں میں اسرائیل کے ایف 35 جہازوں کے اڈے نیواٹم ائیر بیس کو نشانہ بنایا۔ اسرائیل نے جوابی کارروائی کا پیغام دے دیا ہے۔ اس حملے کے بعد جس انداز میں امریکہ نے اسرائیل کی غیر متزلزل حمایت کا اعلان کیا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ کسی بھی طور ظالم اسرائیلی افواج کا ساتھ نہیں چھوڑے گا بلکہ امریکہ ہر حال میں اسرائیل کا ہی ساتھ دے گا۔ ہزاروں مسلمانوں کی بہتے خون کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ امریکہ اسرائیل اور بھارت کے اسلام دشمن حکمران مسلمانوں کے خون کے دشمن ہیں۔ ان سے مدد کی توقع فضول ہے، ان سے مدد کے بجائے ہمیں ان کے مقابلے کی تیاری کرنی چاہیے، ہمیں مقابلے اور مذمت کے بجائے مرمت کی طرف توجہ دینا ہو گی، مسلمان ممالک کو سب سے پہلے تو مزاحمتی تحاریک کی حمایت کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔ پاسداران انقلاب نے اسرائیل پر حملے کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصراللہ پر حملے کابدلہ قرار دیا ہے۔ پاسداران انقلاب نے خبردار کیا کہ اگر صیہونی حکومت نے ملکی و عالمی قوانین کے مطابق کیے گئے آپریشن پر فوجی رد عمل ظاہر کیا تو اس کے بعد اسے زیادہ شدید اور تباہ کن حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس معاملے میں امریکہ کا ردعمل بہت حیران کن اور تکلیف دہ ہے ایک طرف امریکہ عالمی امن کا پیغام دیتا ہے تو دوسری طرف وہ مشرق وسطی میں مسلمانوں کے بہتے خون کو روکنے کے بجائے خون بہانے والوں کا ساتھی ہے۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن فلسطین پر اسرائیلی حملوں کو تو روک نہیں سکے لیکن ایران کے ایک حملے نے انہیں چیخنے پر مجبور کر دیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی فوج کو اسرائیل کے دفاع اور ظالم اسرائیل کی طرف آنے والے ایرانی میزائلوں کو مار گرانے کا حکم دے دیا ہے۔
جو بائیڈن ایرانی حملوں کی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم نے ایران کو بھرپور جواب دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ کیا امت مسلمہ ایران کے خلاف کسی بھی کارروائی کا جواب دینے کے لیے تیار ہے، کیوں ستاون مسلمان ممالک کے رہنماؤں کی طرف سے یہ جواب نہیں آتا کہ ایران کے خلاف کوئی بھی کارروائی ان کے خلاف کارروائی تصور کی جائے گی، کیوں مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے ایسے جذبات کا اظہار اور عملی اقدامات کا اعلان نہیں ہوتا، یاد رکھیں اس خون کا حساب تو ہو گا۔ کیا ایک انسان کی جان کوئی اہمیت نہیں رکھتی، یہاں تو ہزاروں جانیں قربان ہو گئی ہیں اور قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے فرمایا یے کہ ایک انسان کی جان بچانا ایسا ہے جیسے ساری انسانیت کی جان بچانا، تو ہم کدھر بھاگے جا رہے ہیں، کدھر چھپتے پھر رہے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں انہوں نے تو نیٹو کی طرز پر مسلمان ممالک کو متحد ہونے کا پیغام دیا ہے۔ درحقیقت یہ وقت کی ضرورت ہے۔ امت مسلمہ کی قیادت کو ڈاکٹر ذاکر نائیک کی اس تجویز پر فوری غور اور عمل کرنا چاہیے۔ جب تک ایسے اقدامات نہیں ہوں گے خون مسلم بہتا رہے گا، مذمت ہوتی رہے گی اور مسلمان بیبسی کے عالم میں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہودی و عیسائی دنیا کے حکمران مسلمانوں کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں ایک ہو جاتے ہیں تو پھر مسلم امہ کی قیادت کیوں اس اتحاد سے دور ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ غزہ کے مسلمان اسرائیل کے خلاف جہاد کرکے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں غزہ کے مسلمان اسلام کے تیسرے مقدس مقام ( مسجد اقصیٰ) کے دفاع کے لیے جہاد کرکے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔ذاکر نائیک کا کہنا تھا کہ اگر غزہ کے لوگ جہاد نہیں کریں تو ہم پر فرض ہوجائیگا۔
اس موقع پر ذاکر نائیک نے پاکستان کے معروف عالم دین اور صدر وفاق المدارس العربیہ مفتی تقی عثمانی کے گزشتہ دسمبر میں ایک کانفرنس میں دیئے گئے فتوے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں جنگ بندی کے بجائے غزہ پر بمباری بند کرنیکا مطالبہ کرنا چاہیے اور غزہ کے لوگوں کو جہاد جاری رکھنا چاہیے، یہاں تک کہ فلسطین کی سرزمین سے ا?خری یہودی بھی نکل جائے۔ ذاکر نائیک کے مطابق ان کی نظر میں یہ ایک بہترین فتویٰ ہے، مفتی صاحب کے مطابق غزہ اور اطراف کے لوگوں کے لیے جہاد فرض ہے، اگر وہ نہیں کریں گے تو ان کے بعد جو قریب ہیں، پھر اسی طرح ہم پر بھی فرض ہو جاتا ہے۔ ذاکر نائیک نے مزید کہا کہ غزہ کے لوگ جو جدوجہد کر رہے ہیں اس نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ہم جب قرآن و حدیث پڑھتے ہیں اور صحابہ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں کہ وہ کیسے تھے تو یقین نہیں آتا کہ آج کے دور میں بھی ایسے لوگ ہو سکتے ہیں کہ ایک ماں جس کا بیٹا شہید ہو گیا وہ کہتی ہیں کہ اگر میرے 10 بیٹے بھی ہوتے تو اللہ کی راہ میں قربان کر دیتی۔ ایسے لوگوں کے جذبے اور ہمت کو جب غیر مسلم دیکھتے ہیں تو وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے، ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے مغربی ممالک میں لاکھوں افراد نے قرا?ن کا مطالعہ کیا اور اسلام قبول کیا۔ غزہ کے لوگ جہاد کے ساتھ دعوت کا کام بھی سرانجام دے رہے ہیں اور ہمیں بھی اسلام سکھا رہے ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک پاکستان میں ہیں اور انہوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو جہاد کا پیغام بھی دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان جہاد کے لیے تیار ہیں، وہ جو فلسطین کے ساتھ ہیں، یا اس کے قریب، یا اس کے قریب اس اصول کو دیکھا جائے تو کون سا مسلم ملک ہے جو خود کو اس اہم ترین فریضے کو نظر انداز کر سکتا ہے۔