بلاول کی وائرل تقریر اور اگلے وقتوں کے لوگ

پاکستان میں ایرانی سفیر نے کہا ہے کہ ان کے ملک نے اسرائیل پر اڑھائی سو بیلسٹک میزائل چلائے۔ ایرانی حکومتی ذرائع نے یہ تعداد 180 بتائی ہے گویا 70 کا فرق ہے۔ اسرائیل پر ایرانی میزائل حملوں سے اور کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، اتنا ضرور ہوا کہ اسرائیل بھر میں خوف کی لہر پھیل گئی اور کم و بیش تمام آبادی نے شیلٹرز میں پناہ لے لی۔ کچھ دیر کیلئے پورے ملک کی سڑکیں سنسان رہیں اور جانور اِدھر اِدھر بھاگتے اور حیران ہوتے رہے کہ لوگ کہاں غائب ہو گئے۔ 
180 میزائل سارے کے سارے بیلسٹک نہیں تھے۔ کچھ تھے، باقی راکٹ تھے اور لوگ ایک بار یہ سوال پوچھنے لگے کہ ایرانی میزائلوں کا پروڈکشن فارمولا کیا ہے کہ گرتے ہیں تو زمیں پر گڑھا بن جاتا ہے، کچھ ثانیوں کیلئے آگ کا گولہ سا نظر آتا ہے حالانکہ میزائلوں کا تو سب نے یہی دیکھا ہے کہ محض ایک میزائل پوری عمارت کو ریت کا ڈھیر بنا دیتا ہے۔ یہی ماجرا پچھلے ایرانی راکٹ اور ڈرون حملوں میں بھی ہوا تھاکہ اسرائیل میں کوئی مرا نہ زخمی ہوا اور نہ کوئی عمارت گری نہ دیوار اور اب پھر اسی کا ری پلے ہوا ہے۔ کیا ایرانی میزائلوں میں ’’وارہیڈ‘‘ نہیں ہوتے؟۔ یہ تو ہو نہیں سکتا۔ حلب کا 80 لاکھ آبادی کا شہر ایرانی میزائلوں نے چند ہفتوں میں موہنجودڑو کے کھنڈرات میں بدل دیا تھا۔ وہ کوئی اور طرح کے میزائل تھے؟۔ 
ایک تبصرہ یہ کیا جا رہا ہے کہ حزب اللہ کی قیادت کی ہلاکت کے بعد ایران کے اندر سے یہ دبائو ناقابل برداشت حد تک بڑھ گیا تھا کہ اسرائیل سے بدلہ لیا جائے۔ ایرانی قیادت نے اس دبائو کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ لو ، لے لیا بدلہ اور میزائل وہ چلائے کہ اسرائیل کو زیادہ غصہ نہ آئے۔ خیر ایسا نہیں ہے کہ ایران کے حملے سے کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایک فوجی ایرپورٹ کے رن وے تو بہرحال بری طرح تباہ ہوئے۔ ایک میزائل مغربی کنارے میں ایک فلسطینی نوجوان پر جا گرا جس کی جان گئی۔ کچھ میزائل اردن کے ایک گائوں میں گرے۔ کئی گھروں کو آگ لگ گئی البتہ جانی نقصان سے بچت ہو گئی۔ 
ایرانی حملے میں تو نہیں البتہ حماس کی ایک خودکش گوریلا کارروائی میں آٹھ دس یہودی آباد کار مارے گئے، اتنے ہی زخمی ہو گئے۔ تل ابیب کے اندر یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس کے بعد سے اسرائیلی حقیقی معنوں میں دہشت زدہ رہ گئے۔ اچانک دو فلسطینی بندوق بردار نمودار ہوئے اور انہوں نے فائر کھول دیا۔ کافی دیر کے بعد اسرائیلی شوٹرز نے ان دونوں کو شہید کر دیا۔ 
______
ایران کسی صورت اسرائیل سے جنگ نہیں چاہتا اور تباہ کن میزائل غالباً اسی وجہ سے نہیں چلائے گئے۔ حالیہ حملوں کا اسرائیل جواب دے گا لیکن یہ جواب بھی کچھ زیادہ سخت نہیں ہو گا اور یوں جنگ ٹلی رہے گی لیکن یہ پالیسی مختصر مدّت کی ہے۔ اسرائیل اپنے ارادے واضح کر چکا ہے۔ لبنان کی مہم مکمل ہونے کے بعد وہ ایران کے حکمران طبقے کو ٹارگٹ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اصل جنگ اور اصل المیہ غزہ میں ہے جہاں اسرائیل ہر روز سو سے زیادہ فلسطینی شہید اور اس سے بھی زیادہ زخمی کرتا ہے۔ بچوں کے سکول اس کا خاص نشانہ ہیں۔ پچھلے تین دنوں میں اس نے دو کنڈر گارٹن سکولوں پر حملہ کیا۔ اڑھائی اڑھائی تین تین سال کی عمر کے بہت سے بچے مر گئے۔ باقی زخمی اور اپنے اعضا سے محروم ہو گئے۔ اعضا سے محروم اڑھائی تین سال کی عمر کے بچوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ ان کے ہاتھ پا?ں کہاں گئے۔ بہت سے لوگ بمباری سے براہ راست مرتے ہیں اور بہت سے عمارتوں کا ملبہ گرنے کی وجہ سے زندہ دفن ہو کر۔
زندہ دفن ہونے والوں کی جو تعداد غزہ والوں کی ہے، وہ دنیا بھر کا  غالباً نہیں، یقینا سب سے بڑا ریکارڈ ہے۔ فی مربع میل اعضا سے محروم بچوں کی تعداد میں بھی غزہ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ غزہ کے اس دردناک ترین قتل عام کو عالمی پریس میں بالعموم اور مسلمان ممالک کے میڈیا میں بالخصوص بہت کم جگہ ملتی ہے۔
پاکستان کے سب سے ’’کثیر الاشاعت‘‘ اخبار کو ملاحظہ فرمائیے۔ صفحہ 3 پر سنگل یا ڈبل کالم کی سرخری ملے گی کہ غزہ میں مزید ڈیڑھ سو ہلاک۔ اس سے زیادہ بڑی خبر تو کوئی کسی کا گندم کا کھیت جلا دے تو اسے ملتی ہے۔ البتہ کوئی یہودی مارا جائے تو یہ اخبار اس کی خبر صفحہ اوّل پر چھاپتا ہے۔ غنیمت ہے کہ سیاہ حاشیئے نہیں لگاتا۔ 
______
سندھ کے وزیر خوابستان نے ایک روز اپنا خواب سنایا تھا کہ موجودہ وزیر اعظم (شہباز شریف کا نام لئے بغیر) مدّت پوری نہیں کریں گے۔ آج ان کا جو ترمیم شدہ خواب سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ وزیر اعظم اپنی مدّت پوری کر سکتے ہیں۔ 
معلوم ہوا کہ ترمیم صرف آئین میں نہیں ہوتی، خوابوں میں بھی ہوتی ہے۔ اسی ترمیم شدہ خواب کو تصحیح شدہ خواب بھی کہا جا سکتا ہے۔ بہرحال وزیر خوابیات منظور وسان کا ایک خواب ایسا ہے جو لگ بھگ ڈیڑھ سال سے ایک ہی شکل میں ڈٹا ہوا ہے۔ اس میں کوئی ترمیم نہیں ہو رہی اور وہ ہے کہ اڈیالوی صاحب بدستور جیل ہی میں رہیں گے، وہ رہا ہوتے ہی نظر نہیں آتے۔ 
پنڈی والے شیخ چلی یاد آئے۔ اڈیالوی صاحب کی گرفتاری کے چند دنوں بعد ان کا بیان شائع ہوا تھا کہ میں اڈیالوی کو اگلے ہفتے رہا ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ 
______
اختلاف رائے اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں۔ دنیا بھر میں ایسا ہی سمجھا جاتا ہے لیکن گزشتہ سپریم کورٹ (عمر عطا بندیالی والی) نے قرار دیا کہ جو رکن اسمبلی اپنی پارٹی سے اختلاف کرے گا، وہ نااہل اور ڈی سیٹ ہو جائے گا اور اس کا ’’اختلاف رائے‘‘ ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے گا۔ یہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 63۔اے پر ’’آئین سازی‘‘ کرتے ہوئے دیا گیا۔ 
گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلچسپ سوال کیا، اسی اختلاف رائے کے حوالے سے کہ کسی کو بے ضمیر کیسے کہیں۔ کیا اختلاف کرنے والا جج باضمیر ہو گا کہ نہیں؟۔ 
کوئی بتلائو کہ ’’وہ‘‘ بتلائیں کیا
______
اسی بحث کے حوالے سے بلاول بھٹو نے ایک زبردست خطاب کیا ہے جو خوب بلکہ خوب سے بھی زیادہ وائرل ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں وردی والوں کو بھی حق ہے کہ وہ آئین میں ترمیم کریں اور ججوں کو بھی یہ اختیار ہے۔ اگر نہیں ہے تو پارلیمنٹ کو نہیں ہے۔ 
خطاب خوب ہے لیکن جزوی طور پر اسے ’’موثر بہ ماضی‘‘ کہنا چاہیے کہ وردی والے اس وعدے اور اختیار سے نہ صرف دستبردار ہو چکے بلکہ اعلانیہ مان بھی چکے کہ قانون سازی آئین سازی صرف پارلیمنٹ کا حق ہے۔ 
اور عدلیہ میں بھی اسی خیال کے لوگ بڑھ رہے ہیں البتہ ایک بڑی تعداد ججوں کی اب بھی ایسی ہے جو ہتھوڑا ٹھونک کر کہتی ہے کہ پارلیمنٹ کا آئین سازی سے کیا تعلق۔ آئین سازی صرف ہم کریں گے۔ ایسے ججوں کے بارے ہی میں شاعر نے کہا تھا کہ : اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو!

ای پیپر دی نیشن