ہر لمحہ بدلتی اور سنگین سے سنگین تر ہوتی صورتحال میں بدھ کی صبح اٹھ کر لکھا یہ کالم جمعرات کی صبح چھپے گا تو نئے حالات میں شاید جاہلانہ محسوس ہو۔ فی الحال لہٰذا اس امر پر غور کرلیا جائے کہ منگل کی رات طویل صبر اختیار کرنے کے باوجود ایران بالآخر اسرائیل پر میزائلوں کی بارش برسانے کو مجبور کیوں ہوا۔
ایران اور مشرق وسطیٰ کے معاملات کا عاجز طالب علم ہوتے ہوئے مصر رہوں گا کہ تہران میں موجود قیادت کو ’’بدلہ‘‘ لینے کی عجلت لاحق نہیں تھی۔حماس کے سربراہ کو تہران کے محفوظ ترین تصور ہوتے ایک گھر میں نشانہ بنانے کے بعد اسرائیل نے اپنی خفیہ ایجنسی اور طاقت کی رسائی کا دل دہلادینے والا پیغام دیا تھا۔ اس کی بدولت تاثر یہ پھیلا کہ وہ ایران کے کسی بھی مقام یا وہاں موجود اہم ترین شخصیت کو جب چاہے اپنی فوجیں اتارے اور جہاز اڑائے بغیر تباہ کرسکتا ہے۔ جو واقعہ ہوا وہ ہر اعتبار سے ایران کے لئے باعث ندامت تھا۔ ایران مگر دنیا کی قدیم ترین ’’پرشین ایمپائر‘‘ کا وارث بھی ہے اور قدیم تہذیبیں اور اقوام فوری اشتعال میں نہیں آتیں۔ ’’بدلہ‘‘ چکانے کے لئے مناسب وقت کا انتظار کرتی ہیں۔
ہانیہ کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد مگر اسرائیل نے ایران کی کلیدی حلیف حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو بھی لبنان میں ہوئے ایک حملے کے ذریعے شہید کردیا۔ حزب اللہ رواں صدی کی دہائی کے آغاز سے آج تک اسرائیل کے شمال میں واقعہ کئی علاقوں کے سرپربیٹھی جدید ترین میزائلوں سے لیس ایک انتہائی منظم جماعت ہے۔ اسرائیل 1982ء سے 2000ء تک مسلسل لبنان کے جنوبی علاقوں پر قابض رہا تھا۔ اپنی نگرانی میں اس نے ان علاقوں میں ایک عیسائی تنظیم کو مسلح کیا اور اس کی قوت کو پولیس کی صورت استعمال کیا۔ ان ہی برسوں کے دوران مگر حزب اللہ ایک مزاحمتی تحریک کی صورت ابھری اور روا ں صدی کا آغاز ہوتے ہی اسرائیل کو بیروت کے جنوبی علاقوں سے نکل جانے کو مجبور کردیا۔
2006ء میں لیکن اس کی توانائی اور مسلسل بڑھتے اثر نے اسرائیل کو ایک بار پھر لبنان کے جنوبی علاقوں پر حملہ آور ہونے کو اْکسایا۔ اس کا حملہ مگر فضائی حملوں تک محدود رہا۔ اس جنگ کے آغاز سے اختتام تک میں لبنان ہی میں مقیم رہا۔ جنگ کو رپورٹ کرتے ہوئے حزب اللہ کے نظم کے علاوہ ایران کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات کا علم بھی کچھ گہرائی سمیت نصیب ہوگیا۔
حسن نصراللہ کی شہادت ایران کے لئے دفاعی اعتبار سے ایک کلیدی دھچکہ تھا۔ تہران نے مگر عام توقعات کے برعکس ایک بار پھر فوری ردعمل سے گریز کیا۔ ہیجان خیز لمحات میں فوری ردعمل سے گریز لیکن سوشل میڈیا کے دور میں غالباََ کسی بھی ملک کے لئے ممکن نہیں رہا۔ ایران نہایت دانش مندی سے جس ’’صبر‘‘ کا مظاہرہ کررہا تھا اسے ’’بزدلی‘‘ قراردیتے ہوئے سوشل میڈیا پر طعنوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ عرب ممالک کے چائے خانوں میں بلکہ یہ تاثر پھیلا کہ ایران محض ’’بڑھکیں‘‘ لگاتا ہے۔ وہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہیں۔ ایرانی قیادت شاید اس گپ کو بھی برداشت کرلیتی۔ مسلکی تعصبات نے بتدریج مگر یہ تاثر بھی پھیلانا شروع کردیا کہ اسرائیل ہانیہ کے بعد حسن نصراللہ تک اپنے چند ’’ایرانی ایجنٹوں‘‘ کی مدد ہی سے پہنچ پایا تھا۔ مذکورہ بالا تاثر جب تیزی سے پھیلنے لگا تو ایرانی قیادت سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت اختیار کردہ ’’صبر‘‘ سے گریز پر مجبور ہوگئی۔
تہران کو ردعمل پر اْکسانے کا ایک سبب اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کا ایرانی قوم سے روایتی اور سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارم کے ذریعے ہوا براہ راست خطاب بھی تھا۔ مذکورہ خطاب کے دوران نیتن یاہو نے بھرپور منافقت سے ایرانی عوام کو یاددلایا کہ یہودی اور فارسی بولنے والے دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کے نمائندے ہیں۔ ان دونوں اقوام کے درمیان صدیوں سے گہرے ’’دوستانہ‘‘ مراسم رہے ہیں۔ ایران پر لیکن ان دنوں نیتن یاہو کے بقول ’’مذہبی انتہا پسندوں‘‘ کا جوگروہ ’’مسلط‘‘ ہے وہ تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال ملک کے وسائل کو اس کے عوام کی فلاح وبہبود پرخرچ کرنے کو آمادہ نہیں۔ ایرانی عوام کی بے پناہ اکثریت کو غربت وافلاس کے سپرد کرتے ہوئے ایران کی قیادت یمن، عراق اور لبنان کے چند گروہوں کی سرپرستی کرتے ہوئے اسرائیل کو گھیرنے کے چکر میں ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ایران کی ’’فرسودہ قیادت‘‘ سے نجات پائی جائے۔ اس کے بعد ’’صدیوں پرانی دو اقوام‘‘ اپنے وسائل کو یکجا کرتے ہوئے امن، ترقی اور خوش حالی کی شاہراہ پر ہاتھوں میں ہاتھ دیتے گامزن ہوجائیں۔
منگل کی شام اسرائیل کے وزیر اعظم کایہ خطاب انٹرنیٹ کی بدولت میں نے براہ راست نہایت توجہ سے سنا تھا۔ اسے سنتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ ایران میں ’’رجیم چینج‘‘ کی گیم لگائی جارہی ہے۔ یاد رہے کہ 1950ء کی دہائی میں ڈاکٹر مصدق کی قوم پرست حکومت کا تختہ ’’رجیم چینج‘‘ کے لئے بنائی حکمت عملی کے ذریعے ہی الٹاگیا تھا۔ امریکہ اور برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں نے ہمارے خطے میں باہم مل کر پہلی بار ’’رجیم چینج‘‘ کو یقینی بنایا تھا۔ اب کی بار اسے کامیاب بنانے کے لئے ایرانی عوام کی اکثریت کو اس امر پر قائل کرنا تھا کہ ان کی قیادت اپنے لوگوں کی خوشحالی کو مبینہ طورپرنظرانداز کرتے ہوئے لبنان، عراق، شام اور یمن وغیرہ میں جن گروہوں کی پشت پناہی کررہی ہے وہ اسرائیل کو جھکانے کے قابل نہیں۔ حتیٰ کہ ان کی اپنی یعنی ایرانی قیادت بھی ہانیہ اور حسن نصراللہ جیسی بلند قامت شخصیتوں کی شہادت کے بعد ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی نظر آرہی ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم کیلئے نہایت مکاری سے تیار کئے خطاب کے باوجود مجھے گماں تھا کہ ایران بدستور فوری ردعمل سے گریز کی راہ پرڈٹا رہے گا۔ ایران سے کہیں دور بیٹھے زمینی حقائق کو پوری طرح سمجھ نہیں پایا۔ ایرانی قیادت ہی اسرائیلی وزیر اعظم کے خطاب کی وجہ اور اہمیت کا جنگی اعتبار سے تجزیہ کرسکتی تھی۔ اس نے جو نتائج نکالے وہ منگل کی رات اسرائیل پر میزائلوں کی بارش کا سبب ہوئے۔ ایران سے بھیجے میزائیلوں نے مگر اسرائیل میں اس حد تک تباہی نہیں مچائی ہے جس کی سوشل میڈیا پر چھائے سادہ لوح نوجوان توقع باندھے ہوئے تھے۔ ایران سے بھیجے میزائلوں کا اصل ہدف اسرائیل کا ایک فضائی اڈہ تھا جہاں امریکہ کے بنائے جدید ترین- جہازF-35-بہت بڑی تعداد میں رکھے گئے ہیں۔ اسرائیل نے جدید ٹیکنالوجی اور بھاری بھر کم سرمایہ کاری سے میزائلوں کو فضا ہی میں ناکارہ بنانے کا جو نظام بنارکھا ہے وہ کافی حد تک موثر دکھائی دیا۔ ایران کے تیار کردہ جدید ترین میزائلوں کی ایک ورائٹی مگر اس نظام کو چکمہ دے کر ہدف شدہ اڈے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کی وجہ سے F-35طیارے تباہ ہوئے یا نہیں اس کے بارے میں فی الوقت میں کوئی خبر دینے سے قطعاََ معذور ہوں۔
ایران سے بھیجے میزائلوں نے مگر اب امریکہ کو اسرائیل کی حمایت میں کھل کر فوجی اعتبار سے کھڑے ہونے کا جواز فراہم کردیا ہے۔ صدر بائیڈن نے اپنی افواج کو حکم دیا ہے کہ ایران کے ہمسایے اور سمندر کے قریب موجود تمام تر فوجی اڈوں اور بحری بیڑوں کو اب ایران سے اْڑے ہر میزائل کو گرانے کے لئے استعمال کیا جائے۔ بات وہاں ختم نہیں ہوئی۔ اسرائیل کی جانب جو میزائل بھیجے گئے ہیں نیتن یاہو ان کا بے تابی سے منتظر تھا۔ اب وہ نام نہاد عالمی دنیا میں موجود اسرائیل کے دوستوں اور حامیوں کو نہایت دیوانگی سے اس امر پر قائل کرنے کی کوشش کرے گا کہ اسے ایران کی جوہری توانائی کو ’’ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کی‘‘ نہ صرف ’’اجازت‘‘ دی جائے بلکہ اسرائیل کو اس ضمن میں ہر ممکن مدد بھی میسر ہو۔ نیتن یاہو ابھی تک وحشت کے میدان میں دندناتے ہوئے یک وتنہا نظر آرہا تھا۔ منگل کی شام ایران سے بھیجے میزائلوں نے مگر اسرائیل کے دیرینہ اتحادیوں اور بہی خواہوں کو اس کا ساتھ دینے کے جواز فراہم کردئے ہیں۔ غالباََ اسی باعث ایرانی قیادت ابھی تک نہایت دانش مندی سے صبر کی راہ اختیار کئے ہوئے تھی۔ اس کے اپنے ’’دوستوں‘‘ کے دئے طعنوں نے مگر اسے اپنی سوچی سمجھی حکمت عملی پر کاربند رہنے نہیں دیا۔