میاں عزیز الحق قریشی .......
مسلم لیگ نے کیبنٹ مشن پلان کو جو انڈیا کو متحد رکھ سکتا تھا احتجاجاً بھی کیوں قبول کیا، میرے خیال میں زمینی حقائق کی روشنی میں اس کی مؤثر وضاحت ضروری ہے۔ جیسا کہ درج ذیل تجزیے سے واضح ہے قائداعظم محمد علی جناحؒ بے مثال بصیرت کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دور اندیشی کی بے پناہ صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا جس کے باعث ایک مدبّر کی حیثیت سے انکی قامت برصغیر سمیت علاقے کی سیاسی قیادت کے مقابلے میں کہیں زیادہ بلند دکھائی دیتی ہے۔
-1 کیبنٹ مشن پلان میں دو مسلم زونوں میں پورے پنجاب اور پورے بنگال کو مکمل خود مختاری کیساتھ یہ آپشن بھی دی گئی تھی کہ دس سال کے بعد انہیں مکمل آزاد کر دیا جائیگا۔ مزید آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کا ذکر مناسب ہوگا کہ مارچ 1946ء میں جب کیبنٹ مشن پلان سامنے آیا برصغیر کا سیاسی منظر نامہ انتہائی گنجھلک ہو چکا تھا۔ اگرچہ برطانیہ دوسری جنگ عظیم میں فتح سے ہمکنارہو چکا تھا مگر اسکے دل میں یہ احساس جاگزیں ہو چکا تھا کہ سلطنت اسکے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔
برطانوی سلطنت کی ٹوٹ پھوٹ اسکے عملی ظہور سے بہت پہلے دکھائی دے رہی تھی۔ اسے اپنے تاج کے انتہائی بیش قیمت موتی یعنی ہندوستان پر نو آبادیاتی راج کے خاتمے سمیت بہت سے اہم فیصلے کرنے تھے۔ غالب ہندو اکثریت کی حامل کانگرس پورے برصغیر پر غلبے کیلئے کمربستہ تھی مگر مسلم لیگ نے اس کی اس کوشش کیخلاف مزاحمت کی اور مسلم اکثریتی علاقوں کی آزادی کے حصول کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی اس طرح مسلم لیگ اور کانگرس ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوگئیں۔
-2ابہام کی شکار اور کمزور برطانوی ایڈمنسٹریشن اور انڈیا کو چھوڑنے کے طریق کار کے بارے میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہونے کے باعث دیگر چھوٹی اقلیتوں کو روز بروز کچلا جا رہا تھا۔ الجھاؤ کی اس کیفیت اور بدحواسی کے اس عالم میں انہوں نے کیبنٹ مشن پلان پیش کیا۔ قائداعظم نے جو ہمیشہ چوکس اور حالات پر گہری نگاہ رکھے ہوئے تھے اور جو انگریزوں کے سازشی ذہن سے پوری طرح باخبر اور ہندو کی بنیا ذہنیت کو خوب سمجھتے تھے مئی 1946ء میں کیبنٹ مشن پلان کو تسلیم کرنے میں واضح فائدہ بھانپ لیا۔
-3 اس وقت انگریز ہندو اور مسلمان اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں جانتے تھے کہ مستقبل قریب میں ہندوستان کو کب آزادی دے دی جائیگی۔
-4قائداعظم کی بصیرت نے فوراً ہی انکے ذہن میں اس آئیڈیا کی افادیت اجاگر کردی کہ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے بغیر تیسرے زون یعنی ہندو انڈیا کی دونوں جانب دو عظیم مسلمان زون حاصل کرلئے جائیں۔ انکی دوربیں نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ مسلمان خون کا ایک قطرہ تک بہائے بغیر اپنے مستقبل کے مالک بن جائیں گے اور اس طرح انہیں ان حالات سے نجات مل جائیگی جن میں وہ ایک صدی یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے رہ رہے ہیں۔
-5 دوسری جانب اکثریت میں ہونے کے باعث ہندو برصغیر کے مسلمانوں پر ہمیشہ کیلئے غلبہ حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے، قائداعظم محمد علی جناح اس کھیل کو پوری طرح سمجھتے تھے، وہ ہندوؤں اور دکاندار قوم یعنی انگریزوں پر کبھی اعتماد نہیں کرتے تھے اور پاکستان بنتا دیکھ رہے تھے۔ تاہم ہندو مسلمانوں کے الگ وطن کے نظریے کو کچل دینے کا تہیہ کئے ہوئے تھے۔ اس مقصد کیلئے انکی سازشی ذہنیت پنجاب بنگال اور آسام کی تقسیم کی شکل میں سامنے آئی تاکہ آغاز میں ہی پاکستان کے حصے بخرے کر دئیے جائیں۔
-6 ذہن پر ذرا سا بھی زور دیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جائیگی کہ دو آزاد اور خود مختار ملکوں کے قیام سے پہلے اور بعد میں انتہائی قابل افسوس ناک قتل و غارت پنجاب اور آسام کی تقسیم کا براہ راست نتیجہ تھی یہ پنجاب اور آسام کی تقسیم ہی تھی کہ جو لاکھوں افراد خصوصاً مسلمانوں کے قتل عام کا باعث بنی۔
-7 یہ بھی پنجاب کی تقسیم ہی تھی جس کی بدولت آزادی سے ایک سال سے بھی کم عرصے میں بھارت دیپالپور کینال اور اپر باری دوآب کی مین برانچوں کو پانی کی فراہمی بند کر دینے کے قابل ہوگیا۔
-8 یہ بھی پنجاب کی تقسیم ہی کا شاخسانہ تھا کہ بھارت آزادی کے حصول کے دو ہی ماہ بعد اپنی افواج کشمیر میں داخل کرنے کے قابل ہوگیا اس طرح اس نے وہ مسئلہ پیدا کر دیا جو اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان تین بڑی جنگوں کا موجب بن چکا ہے۔
-9 یہ بھی پنجاب کی تقسیم ہی تھی جس کے باعث جموں کے ہندوؤں کیلئے اکثریتی کمیونٹی مسلمانوں کیخلاف فرقہ وارانہ جنون پیدا کرنا ممکن ہوگیا اور انہیں ایسے آلام کا شکار کر دیا گیا جن کا انہوں نے ڈوگرہ راج میں بھی تصور تک نہ کیا تھا۔
-10یہ بھی پنجاب اور بنگال کی تقسیم تھی جس کی بدولت مشرقی پنجاب یو پی، سی پی بہار اور بنگال کے مسلمان الگ تھلگ ہو کر انتہا پسندوں کیلئے ترنوالہ بن گئے۔
-11 قتل عام کے تمام واقعات مسلمانوں کے غیر قانونی قبضے اور بالکل آغاز میں ہی پاکستان کو مفلوج کر دینے کی کوششیں کر کے ہندوؤں اور سکھوں نے ایک خوفناک کھیل کھیلا۔
-12 اگر پنجاب اور آسام کی تقسیم نہ کی جاتی یا تقسیم اس طرح نہ ہوتی جس طرح سے کی گئی تو نہ ہمیں سندھ طاس معاہدے کے ذریعے اپنے دریا بھارت کے ہاتھ بیچنا پڑتے نہ ایسا قتل عام ہوتا جس کی برصغیر کی تاریخ میں کوئی نظیر موجود نہیں۔
-13 یہ بھی پنجاب اور بنگال کی تقسیم ہی تھی کہ سرحد کے دونوں جانب اس قدر بڑی سطح پر لوگوں نے ہجرت کی جس کی جدید تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگر ہندو کیبنٹ مشن پلان کو تسلیم کر لیتے تو نہ مسئلہ کشمیر پیدا ہوتا نہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگیں ہوتیں نہ اس خطے میں بڑی طاقتوں کیلئے سازشوں کے مواقع پیدا ہوتے بلکہ غالب ترین امکانات یہی تھے کہ پاکستان اور بھارت امن سے اور ایک دوسرے کیساتھ تعاون کیساتھ زندگی بسر کرتے۔ ایک دوسرے کی ترقی میں شریک ہوتے غربت اور محرومی جیسے مسائل کے حل کیلئے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے اور دوسرے پڑوسی ملکوں کی طرح ایک دوسرے کے احترام اور مفاہمت کے جذبے کیساتھ آگے بڑھتے۔ اسکے علاوہ جنوبی ایشیا دنیا کے انتہائی مستحکم خوشحال اور پیداواری خطوں میں سے ہوتا۔
دیکھا جائے تو ان تمام مصائب کے پیچھے پنجاب اور آسام کی غیر منصفانہ شر انگیز اور بدنیتی پر مبنی تقسیم ہی کا عمل دخل ہے‘ جس نے پرامن اور خوشحال جنوبی ایشیاء کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا۔
مسلم لیگ نے کیبنٹ مشن پلان کو جو انڈیا کو متحد رکھ سکتا تھا احتجاجاً بھی کیوں قبول کیا، میرے خیال میں زمینی حقائق کی روشنی میں اس کی مؤثر وضاحت ضروری ہے۔ جیسا کہ درج ذیل تجزیے سے واضح ہے قائداعظم محمد علی جناحؒ بے مثال بصیرت کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دور اندیشی کی بے پناہ صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا جس کے باعث ایک مدبّر کی حیثیت سے انکی قامت برصغیر سمیت علاقے کی سیاسی قیادت کے مقابلے میں کہیں زیادہ بلند دکھائی دیتی ہے۔
-1 کیبنٹ مشن پلان میں دو مسلم زونوں میں پورے پنجاب اور پورے بنگال کو مکمل خود مختاری کیساتھ یہ آپشن بھی دی گئی تھی کہ دس سال کے بعد انہیں مکمل آزاد کر دیا جائیگا۔ مزید آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کا ذکر مناسب ہوگا کہ مارچ 1946ء میں جب کیبنٹ مشن پلان سامنے آیا برصغیر کا سیاسی منظر نامہ انتہائی گنجھلک ہو چکا تھا۔ اگرچہ برطانیہ دوسری جنگ عظیم میں فتح سے ہمکنارہو چکا تھا مگر اسکے دل میں یہ احساس جاگزیں ہو چکا تھا کہ سلطنت اسکے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔
برطانوی سلطنت کی ٹوٹ پھوٹ اسکے عملی ظہور سے بہت پہلے دکھائی دے رہی تھی۔ اسے اپنے تاج کے انتہائی بیش قیمت موتی یعنی ہندوستان پر نو آبادیاتی راج کے خاتمے سمیت بہت سے اہم فیصلے کرنے تھے۔ غالب ہندو اکثریت کی حامل کانگرس پورے برصغیر پر غلبے کیلئے کمربستہ تھی مگر مسلم لیگ نے اس کی اس کوشش کیخلاف مزاحمت کی اور مسلم اکثریتی علاقوں کی آزادی کے حصول کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی اس طرح مسلم لیگ اور کانگرس ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوگئیں۔
-2ابہام کی شکار اور کمزور برطانوی ایڈمنسٹریشن اور انڈیا کو چھوڑنے کے طریق کار کے بارے میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہونے کے باعث دیگر چھوٹی اقلیتوں کو روز بروز کچلا جا رہا تھا۔ الجھاؤ کی اس کیفیت اور بدحواسی کے اس عالم میں انہوں نے کیبنٹ مشن پلان پیش کیا۔ قائداعظم نے جو ہمیشہ چوکس اور حالات پر گہری نگاہ رکھے ہوئے تھے اور جو انگریزوں کے سازشی ذہن سے پوری طرح باخبر اور ہندو کی بنیا ذہنیت کو خوب سمجھتے تھے مئی 1946ء میں کیبنٹ مشن پلان کو تسلیم کرنے میں واضح فائدہ بھانپ لیا۔
-3 اس وقت انگریز ہندو اور مسلمان اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں جانتے تھے کہ مستقبل قریب میں ہندوستان کو کب آزادی دے دی جائیگی۔
-4قائداعظم کی بصیرت نے فوراً ہی انکے ذہن میں اس آئیڈیا کی افادیت اجاگر کردی کہ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے بغیر تیسرے زون یعنی ہندو انڈیا کی دونوں جانب دو عظیم مسلمان زون حاصل کرلئے جائیں۔ انکی دوربیں نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ مسلمان خون کا ایک قطرہ تک بہائے بغیر اپنے مستقبل کے مالک بن جائیں گے اور اس طرح انہیں ان حالات سے نجات مل جائیگی جن میں وہ ایک صدی یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے رہ رہے ہیں۔
-5 دوسری جانب اکثریت میں ہونے کے باعث ہندو برصغیر کے مسلمانوں پر ہمیشہ کیلئے غلبہ حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے، قائداعظم محمد علی جناح اس کھیل کو پوری طرح سمجھتے تھے، وہ ہندوؤں اور دکاندار قوم یعنی انگریزوں پر کبھی اعتماد نہیں کرتے تھے اور پاکستان بنتا دیکھ رہے تھے۔ تاہم ہندو مسلمانوں کے الگ وطن کے نظریے کو کچل دینے کا تہیہ کئے ہوئے تھے۔ اس مقصد کیلئے انکی سازشی ذہنیت پنجاب بنگال اور آسام کی تقسیم کی شکل میں سامنے آئی تاکہ آغاز میں ہی پاکستان کے حصے بخرے کر دئیے جائیں۔
-6 ذہن پر ذرا سا بھی زور دیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جائیگی کہ دو آزاد اور خود مختار ملکوں کے قیام سے پہلے اور بعد میں انتہائی قابل افسوس ناک قتل و غارت پنجاب اور آسام کی تقسیم کا براہ راست نتیجہ تھی یہ پنجاب اور آسام کی تقسیم ہی تھی کہ جو لاکھوں افراد خصوصاً مسلمانوں کے قتل عام کا باعث بنی۔
-7 یہ بھی پنجاب کی تقسیم ہی تھی جس کی بدولت آزادی سے ایک سال سے بھی کم عرصے میں بھارت دیپالپور کینال اور اپر باری دوآب کی مین برانچوں کو پانی کی فراہمی بند کر دینے کے قابل ہوگیا۔
-8 یہ بھی پنجاب کی تقسیم ہی کا شاخسانہ تھا کہ بھارت آزادی کے حصول کے دو ہی ماہ بعد اپنی افواج کشمیر میں داخل کرنے کے قابل ہوگیا اس طرح اس نے وہ مسئلہ پیدا کر دیا جو اب تک پاکستان اور بھارت کے درمیان تین بڑی جنگوں کا موجب بن چکا ہے۔
-9 یہ بھی پنجاب کی تقسیم ہی تھی جس کے باعث جموں کے ہندوؤں کیلئے اکثریتی کمیونٹی مسلمانوں کیخلاف فرقہ وارانہ جنون پیدا کرنا ممکن ہوگیا اور انہیں ایسے آلام کا شکار کر دیا گیا جن کا انہوں نے ڈوگرہ راج میں بھی تصور تک نہ کیا تھا۔
-10یہ بھی پنجاب اور بنگال کی تقسیم تھی جس کی بدولت مشرقی پنجاب یو پی، سی پی بہار اور بنگال کے مسلمان الگ تھلگ ہو کر انتہا پسندوں کیلئے ترنوالہ بن گئے۔
-11 قتل عام کے تمام واقعات مسلمانوں کے غیر قانونی قبضے اور بالکل آغاز میں ہی پاکستان کو مفلوج کر دینے کی کوششیں کر کے ہندوؤں اور سکھوں نے ایک خوفناک کھیل کھیلا۔
-12 اگر پنجاب اور آسام کی تقسیم نہ کی جاتی یا تقسیم اس طرح نہ ہوتی جس طرح سے کی گئی تو نہ ہمیں سندھ طاس معاہدے کے ذریعے اپنے دریا بھارت کے ہاتھ بیچنا پڑتے نہ ایسا قتل عام ہوتا جس کی برصغیر کی تاریخ میں کوئی نظیر موجود نہیں۔
-13 یہ بھی پنجاب اور بنگال کی تقسیم ہی تھی کہ سرحد کے دونوں جانب اس قدر بڑی سطح پر لوگوں نے ہجرت کی جس کی جدید تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگر ہندو کیبنٹ مشن پلان کو تسلیم کر لیتے تو نہ مسئلہ کشمیر پیدا ہوتا نہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگیں ہوتیں نہ اس خطے میں بڑی طاقتوں کیلئے سازشوں کے مواقع پیدا ہوتے بلکہ غالب ترین امکانات یہی تھے کہ پاکستان اور بھارت امن سے اور ایک دوسرے کیساتھ تعاون کیساتھ زندگی بسر کرتے۔ ایک دوسرے کی ترقی میں شریک ہوتے غربت اور محرومی جیسے مسائل کے حل کیلئے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے اور دوسرے پڑوسی ملکوں کی طرح ایک دوسرے کے احترام اور مفاہمت کے جذبے کیساتھ آگے بڑھتے۔ اسکے علاوہ جنوبی ایشیا دنیا کے انتہائی مستحکم خوشحال اور پیداواری خطوں میں سے ہوتا۔
دیکھا جائے تو ان تمام مصائب کے پیچھے پنجاب اور آسام کی غیر منصفانہ شر انگیز اور بدنیتی پر مبنی تقسیم ہی کا عمل دخل ہے‘ جس نے پرامن اور خوشحال جنوبی ایشیاء کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا۔