بیدار سرمدی
بھارت سے دوستی کی دو آتشہ بوتل کا نشہ اپنی جگہ مگر ڈھاکہ سے لائے گئے سبز رنگ کے ٹینک کا کیا کیا جائے جو دوستی کی خواہش کے سارے نشے ہرن کئے دیتا ہے جی ہاں یہ پاکستان ٹینک ”سیفا“ (ساﺅتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن) کے پاک بھارت دوستی کے نعروں‘ سرحدوں پر موم بتیاں جلانے‘ بھارتی اور پاکستانی آرٹسٹوں کے توبہ شکن رقص اور جلووں پر مبنی محفلوں بلکہ ایک نئی کہانی کے نام پر سیمیناروں میں قدآور رہنماﺅں کی تقاریر کے مسودہ کی ٹشو پیپر کی سلوٹوں جتنی اہمیت بھی نہیں رہنے دیتا۔ سبز رنگ کا T-3-110 ماڈل کا یہ تاریخی ٹینک 1971ءمیں پاکستان کو دولخت کر دینے اور نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دینے والے جیسے الفاظ والی اندرا گاندھی کی تقریروں کے سیاہ آندھی جیسے پس منظر کے ساتھ اس وقت بھی بڑے بڑے پاکستانیوں کو اپنی بارگاہ میں بلا کر شرمندہ کر رہا ہے۔ پاکستانی تو اس پستول کو بھی نہیں بھولے جو پلٹن میدان میں جنرل اوڑوہ کے سامنے رکھے جانے کے بعد ایک مدت سے ممبئی کے عجائب گھر میں اپنی بدنصیبی پر نوحہ کناں ہے مگر سبز رنگ کے اس پاکستانی ٹینک کا نوحہ اور طرح کا ہے اس ٹینک کو ڈھاکہ سے اجمیر شریف کے نواح تک لانے کے پس منظر میں ایک پوری سوچ ایک پوری کہانی ماتم کناں ہے۔ سیفما کی کانفرنس میں پیش کردہ ایک نئی کہانی کو اپنے پاﺅں تلے کچلتی ہوئی کہانی .... بھارت نے ایک مدت سے اس ٹینک کو اجمیر شریف کے نواح میں 19ویں صدی کی ریزیڈنسی (جو آج کل سرکٹ ہاﺅس کہلاتی ہے) کے داخلی دروازے پر رکھا رہوا ہے اور اس پر پاکستانی فوج کے سابق مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کا ٹیگ اتنا نمایاں لکھ رکھا ہے کہ دور سے پڑھا جا سکے۔ بھارت جانے والے اور خاص طور پر خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی درگاہ پُر انوار پر حاضری دینے کے تمام خواہشمند غیر ملکی مشاہیر اور خاص طور پر پاکستانیوں کو آرام کے بہانے کچھ دیر کیلئے اس سرکٹ ہاﺅس میں ضرور لایا جاتا ہے چنانچہ راستے میں نمایاں جگہ پر رکھے اس سبز رنگ کے پاکستانی ٹینک اور اس پر لٹکے ہوئے ٹیگ پر نظریں ڈالے بغیر کوئی سرکٹ ہاﺅس میں داخل نہیں ہو سکتا۔ 22 فروری 1987ءکو اس وقت کے پاکستانی صدر اور فوجی سربراہ جنرل ضیاءالحق کو اسی ٹینک کے ذریعہ شرمندہ کیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ اور دوبار پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے والے میاں نواز شریف اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر جنرل صاحب کے ہمراہ تھے۔ 15 جولائی 2001ءکو سابق صدر اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو اسی سرکٹ ہاﺅس میں لے جا کر اور اسی ٹینک کا نظارہ کروا کر شرمندہ کیا گیا اور کسی نہ کسی صورت میں یہ سلسلہ آج تک جاری رہے۔ بظاہر یہ سرکٹ ہاﺅس ایک بلندی پر ہے اور اہم مہمانوں کو وہاں اس لئے لے جایا جاتا ہے کہ وہاں سے جھیل اناس نگر کا نظارہ کروایا جا سکے مگر اصل نظارہ اور اصل مقصود کچھ اور ہوتا ہے۔
ماضی پہ نظر رکھنے والوں کو یاد ہو گا کہ جنرل ضیاءالحق اور ان کا وفد جب اجمیر شریف سے واپس آیا تھا تو بھارت کے انتہا پسندوں نے خود ہی نظریاتی فاصلوں کا ثبوت اس طرح دیا تھا کہ ایک طرف درگاہ کا فرش دھویا گیا اور دوسری طرف منڈی کے دکانداروں نے پوری مارکیٹ دھو ڈالی۔ ہمارے ہاں تو یوں بھی ہوا ہے کہ ہمارے بعض رہنماﺅں نے اپنے بھارتی مہمانوں کی خوشنودی کی خاطر میزائلوں کے ماڈل اہم شاہراہوں سے ہٹا لئے تھے حال ہی میں ایک الیکٹرانک چینل پر ”سیفما“ کے حوالے سے ہونے والی ”کراس فائرنگ“ پر بہت لے دے ہو رہی ہے اور 50 کے لگ بھگ صحافیوں اور دانشوروں کے دستخطوں والی ایک ای میل مجھے بھی ملی ہے۔ ان 50 ناموں میں بعض نام تو واقعی اہمیت رکھتے ہیں بھارت کی نظر میں اتنے بڑے ناموں کی کچھ تو قدر ہو گی کیا یہ حضرات بھارت کی سرحد پر محبت کے نغمے گانے سے پہلے اپنے ممدوح سے ایک چھوٹی سی بات منوا سکتے ہیں کہ وہ اجمیر شریف کے نواح میں سرکٹ ہاﺅس کے داخلی دروازے پر پاکستانیوں کو شرمندہ کرنےوالے اس ٹینک کو ہٹا دے جس کا رنگ سبز ہے اور جس کا ماڈل T-3-110 ہے۔
بھارت سے دوستی کی دو آتشہ بوتل کا نشہ اپنی جگہ مگر ڈھاکہ سے لائے گئے سبز رنگ کے ٹینک کا کیا کیا جائے جو دوستی کی خواہش کے سارے نشے ہرن کئے دیتا ہے جی ہاں یہ پاکستان ٹینک ”سیفا“ (ساﺅتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن) کے پاک بھارت دوستی کے نعروں‘ سرحدوں پر موم بتیاں جلانے‘ بھارتی اور پاکستانی آرٹسٹوں کے توبہ شکن رقص اور جلووں پر مبنی محفلوں بلکہ ایک نئی کہانی کے نام پر سیمیناروں میں قدآور رہنماﺅں کی تقاریر کے مسودہ کی ٹشو پیپر کی سلوٹوں جتنی اہمیت بھی نہیں رہنے دیتا۔ سبز رنگ کا T-3-110 ماڈل کا یہ تاریخی ٹینک 1971ءمیں پاکستان کو دولخت کر دینے اور نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دینے والے جیسے الفاظ والی اندرا گاندھی کی تقریروں کے سیاہ آندھی جیسے پس منظر کے ساتھ اس وقت بھی بڑے بڑے پاکستانیوں کو اپنی بارگاہ میں بلا کر شرمندہ کر رہا ہے۔ پاکستانی تو اس پستول کو بھی نہیں بھولے جو پلٹن میدان میں جنرل اوڑوہ کے سامنے رکھے جانے کے بعد ایک مدت سے ممبئی کے عجائب گھر میں اپنی بدنصیبی پر نوحہ کناں ہے مگر سبز رنگ کے اس پاکستانی ٹینک کا نوحہ اور طرح کا ہے اس ٹینک کو ڈھاکہ سے اجمیر شریف کے نواح تک لانے کے پس منظر میں ایک پوری سوچ ایک پوری کہانی ماتم کناں ہے۔ سیفما کی کانفرنس میں پیش کردہ ایک نئی کہانی کو اپنے پاﺅں تلے کچلتی ہوئی کہانی .... بھارت نے ایک مدت سے اس ٹینک کو اجمیر شریف کے نواح میں 19ویں صدی کی ریزیڈنسی (جو آج کل سرکٹ ہاﺅس کہلاتی ہے) کے داخلی دروازے پر رکھا رہوا ہے اور اس پر پاکستانی فوج کے سابق مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کا ٹیگ اتنا نمایاں لکھ رکھا ہے کہ دور سے پڑھا جا سکے۔ بھارت جانے والے اور خاص طور پر خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی درگاہ پُر انوار پر حاضری دینے کے تمام خواہشمند غیر ملکی مشاہیر اور خاص طور پر پاکستانیوں کو آرام کے بہانے کچھ دیر کیلئے اس سرکٹ ہاﺅس میں ضرور لایا جاتا ہے چنانچہ راستے میں نمایاں جگہ پر رکھے اس سبز رنگ کے پاکستانی ٹینک اور اس پر لٹکے ہوئے ٹیگ پر نظریں ڈالے بغیر کوئی سرکٹ ہاﺅس میں داخل نہیں ہو سکتا۔ 22 فروری 1987ءکو اس وقت کے پاکستانی صدر اور فوجی سربراہ جنرل ضیاءالحق کو اسی ٹینک کے ذریعہ شرمندہ کیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ اور دوبار پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے والے میاں نواز شریف اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر جنرل صاحب کے ہمراہ تھے۔ 15 جولائی 2001ءکو سابق صدر اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو اسی سرکٹ ہاﺅس میں لے جا کر اور اسی ٹینک کا نظارہ کروا کر شرمندہ کیا گیا اور کسی نہ کسی صورت میں یہ سلسلہ آج تک جاری رہے۔ بظاہر یہ سرکٹ ہاﺅس ایک بلندی پر ہے اور اہم مہمانوں کو وہاں اس لئے لے جایا جاتا ہے کہ وہاں سے جھیل اناس نگر کا نظارہ کروایا جا سکے مگر اصل نظارہ اور اصل مقصود کچھ اور ہوتا ہے۔
ماضی پہ نظر رکھنے والوں کو یاد ہو گا کہ جنرل ضیاءالحق اور ان کا وفد جب اجمیر شریف سے واپس آیا تھا تو بھارت کے انتہا پسندوں نے خود ہی نظریاتی فاصلوں کا ثبوت اس طرح دیا تھا کہ ایک طرف درگاہ کا فرش دھویا گیا اور دوسری طرف منڈی کے دکانداروں نے پوری مارکیٹ دھو ڈالی۔ ہمارے ہاں تو یوں بھی ہوا ہے کہ ہمارے بعض رہنماﺅں نے اپنے بھارتی مہمانوں کی خوشنودی کی خاطر میزائلوں کے ماڈل اہم شاہراہوں سے ہٹا لئے تھے حال ہی میں ایک الیکٹرانک چینل پر ”سیفما“ کے حوالے سے ہونے والی ”کراس فائرنگ“ پر بہت لے دے ہو رہی ہے اور 50 کے لگ بھگ صحافیوں اور دانشوروں کے دستخطوں والی ایک ای میل مجھے بھی ملی ہے۔ ان 50 ناموں میں بعض نام تو واقعی اہمیت رکھتے ہیں بھارت کی نظر میں اتنے بڑے ناموں کی کچھ تو قدر ہو گی کیا یہ حضرات بھارت کی سرحد پر محبت کے نغمے گانے سے پہلے اپنے ممدوح سے ایک چھوٹی سی بات منوا سکتے ہیں کہ وہ اجمیر شریف کے نواح میں سرکٹ ہاﺅس کے داخلی دروازے پر پاکستانیوں کو شرمندہ کرنےوالے اس ٹینک کو ہٹا دے جس کا رنگ سبز ہے اور جس کا ماڈل T-3-110 ہے۔