امریکہ تیسری جنگِ عظیم چھیڑنے پر تُلا ہوا ہے اور عالمِ اسلام ہے کہ میٹھی نیند سو رہا ہے۔ ایران عراق نے امریکی ایماءپر ایک دوسرے کو مسلسل ایک دہائی تک تباہ برباد کیا۔ بالآخر عراق کی جڑیں اور صفیں کمزور ہو گئیں۔ عراق ایک مسکنِ عبرت بن گیا۔ پھر امریکہ نے صدام حسین جیسے ناعاقبت شخص کو عراق کی بیخ کنی کیلئے استعمال کیا اور دنیا نے دیکھا کہ بڑھکیں لگانے اور جاہ و جلال کے مظاہرے کرنیوالا، ایک اشارے پر عراقیوں کو نچانے والا ذلت آمیز پھانسی کے ذریعے دنیا سے مٹا دیا گیا‘ ہر وہ لیڈر جس نے امریکہ پر بھروسہ کیا، امریکہ سے دوستی پالی اور امریکہ کے قرب کا خواہاں ہوا۔ امریکہ کے پہلو میں مست ہوا، اُسی کا ٹینٹوا دبا دیا گیا۔
مصر میں ہونیوالے حالیہ حادثات امریکی پالیسیوں کے سنگین نتائج ہیں۔ مصر دنیا کے اُن چار عظیم ممالک میں شامل ہے جن کی تاریخ پانچ سے چھ ہزار سال پُرانی ہے۔ عظیم یونان، روم اور ہندوستان کیساتھ ساتھ مصری تہذیب بھی اسی قدر قدیم ہے اور علوم و فنون کے لحاظ سے چاروں ممالک کا موازنہ کبھی کبھی ناممکن ہو جاتا ہے۔ مصری تہذیب کے اثرات اور نشانات آج بھی باقی ہیں جبکہ دیگر تہذیبوں کا قدیم علم نسبتاً معدوم ہو گیا ہے۔ مصر کی تاریخ میں فراعینِ مصر کے بعد شاید یہ پہلا موقع ہے جب اتنی بڑی تعداد میں خون کے دریا بہائے گئے ہیں۔ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کا پہلے تختہ اُلٹا گیا اور جیل میں حسنی مبارک کو بڑی بے رحمی سے ڈالا گیا لیکن جب صدر مُرسی کے ساتھ امریکہ کے معاملات نہ چلے تو صدر مرسی کو سبق سکھانے کی خاطر ہزاروں مصریوں کو مار ڈالا گیا۔ اس کیساتھ ساتھ امریکہ بیک وقت نائن الیون کے نام پر افغانستان کو بارود کا ملبہ بنانے کے علاوہ پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے پر تُلا ہوا ہے۔ بھارت پر نگاہِ التفات اور پاکستان پر کڑی نظر! کشمیر میں بھارت کی دراندازی اور درندگی محض امریکہ کی شہہ پر ہے۔ کشمیر میں 1947ءکے دن سے آج تک، کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب کسی مسلمان کا خون نہ بہایا گیا ہو۔ اسکے علاوہ امریکہ ایران پر بھی طویل عرصہ سے حملہ کرنے کی نیت کئے بیٹھا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آج تک امریکہ حملہ کرنے کی ہمت نہیں کر سکا ہے۔ امریکہ کا ٹارگٹ اِس وقت شام بنا ہوا ہے۔ عین ممکن ہے کہ جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں، امریکہ اُس وقت شام پر حملہ کر رہا ہو کیونکہ گزشتہ تین ہفتوں سے وہ دھمکیاں دے رہا ہے اور پچھلے ایک ہفتہ سے اپنے اہداف کی تشہیر کر رہا ہے تاکہ اندازہ کر سکے کہ اگر شام پر حملہ کرتا ہے تو اسلامی دنیا کا کیا رسپانس ہو گا.... حالانکہ اب امریکہ کو اسلامی ممالک پر پے در پے حملے کرنے کے بعد جان لینا چاہئے کہ مسلم دنیا اس وقت نفاق، نفسا نفسی اور بے حسی کی چادر اوڑھے سو رہی ہے۔ مصر میں خون کی ندیاں بہہ گئیں، عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، افغانستان ملبہ کا ڈھیر بن گیا۔ پاکستان میں آگ بھڑکا دی گئی اور ہر روز دنیا میں امریکہ نے کم و بیش پانچ سو سے ہزار مسلمانوں کو موت کا تر نوالہ بنا دیا لیکن اقوام متحدہ سمیت او آئی سی، یورپی یونین، سارک، نام، جی ایٹ میں سے کسی نے اس بہیمانہ کارروائیوں پر احتجاج نہیں کیا۔ اسی بے ضمیری، بے حسی اور بے غیرتی کی وجہ سے آج ایک سیاہ فام امریکی صدر بارک اوبامہ کہتا ہے کہ ہم نے شام پر حملے کا فیصلہ کر لیا ہے اور کسی بھی وقت شام پر حملہ کر دینگے۔ امریکی صدر نے دیدہ دلیری سے یہ بھی کہا ہے کہ سلامتی کونسل کی منظوری ضروری نہیں ہے۔ امریکی صدر نے مزید کہا کہ دنیا کو بتانا ہو گا کہ امریکہ جو کہتا ہے، کرتا بھی ہے۔
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ علم پر طاقت حاوی ہے اور سچائی پر سازش بھاری ہے، بہادری پر پروپیگنڈہ کو برتری حاصل ہے۔ ایمانداری پر کرپشن کو فوقیت ہے۔ وفاداری سے زیادہ چمکدار چاپلوسی ہے اور اقتدار کی سیڑھیاں، امریکہ کے پاس ضمیر گروی رکھ کر چڑھی جاتی ہیں۔ مسلم حکمرانوں کا یہی مطمع¿ نظر رہا ہے اور ایک ایک کر کے ہر مسلم ضمیر فروش حکمران نے منہ کی کھائی ہے۔ اسکی تازہ ترین مثال پرویز مشرف بھی ہیں۔ آج نہ جن کا کوئی حال ہے نہ مستقبل ہے، صرف ماضی کی احمقانہ پرچھائیاں ہیں۔ اس وقت بارک اوبامہ نے اپنے گُرو جارج ڈبلیو بش کے تعصب اور بُغض کو بھی مات دیدی ہے اور ہٹلر کی روح بھی قفس میں مضطرب ہو گی بلکہ چنگیز اور ہلاکو خان بھی بارک اوبامہ کو سیلوٹ کرنے کیلئے بے چین ہونگے۔ بدقسمتی سے جو بائیڈن جو امریکی نائب صدر ہیں اور متوقع مستقبل کے صدر بھی نظر آرہے ہیں۔ وہ بھی بارک اوبامہ کے حقیقی جانشین ثابت ہونگے کیونکہ اُنکے ارادے اور بیانات سے اُنکی نیت کا اندازہ ہو رہا ہے۔ خیال ہے کہ جو بائیڈن جنگ عظیم اول و دوئم کے تمام ظالم حکمرانوں اور جرنیلوں کو مات دے دینگے۔ اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ امریکہ 2013ءمیں شام، یمن اور مصر کو تہس نہس کر دینا چاہتا ہے جبکہ 2014ءمیں اُسکا ارادہ ایران، پاکستان اور افغانستان کو ٹھکانے لگانے کا ہے۔ امریکہ 2015ءتک لبنان، اردن، ترکی، متحدہ عرب امارات اور روس سے ملحق اسلامی ریاستوں پر تسلط کا ہے۔ اقوام متحدہ کا کردار ایک کٹھ پتلی اور تماشائی کا چلا آ رہا ہے۔ جن مقاصد کیلئے اقوام متحدہ وجود میں آئی تھی۔ اُن میں سے ایک بھی مقصد پورا نہیں ہوا۔ سوائے اسکے کہ اقوام متحدہ نے جو صحت اور تعلیم کے حوالے سے امدادیں شروع کیں، اُنکا ایجنڈا تیسری دنیا میں این جی اوز کے ذریعے مغرب کا پرچار اور برتری تھا۔ اقوام متحدہ کی نکیل ہمیشہ امریکہ کے ہاتھ میں چلی آ رہی ہے۔ اقوام متحدہ سے تیسری دنیا کو کبھی انصاف نہیں ملا۔ اس سے بھی زیادہ ”شرمناک“ کردار او آئی سی کا رہا ہے جہاں رٹی رٹائی تقریریں، مصافحے، گپ شپ، سیر و تفریح ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ او آئی سی نے کبھی کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ مسلم حکمرانوں نے اقتدار اور عیش و عشرت کی خاطر خود کو اور اپنی قوموں کو سرنگوں کر ڈالا ہے‘ اسی لئے آج امریکہ اسلام اور مسلمانوں کو مٹا دینے پر تُلا ہے۔ امریکہ تیسری جنگ عظیم کو مسلسل دعوت دے رہا ہے لیکن مسلم دنیا کے کانوں پر جوں کا بچہ بھی نہیں رینگ رہا۔ اب تو دل کی تسلی کیلئے یہی کہنا پڑتا ہے کہ کاش! کولمبس نے امریکہ دریافت نہ کیا ہوتا تو آج دنیا دلدل میں نہ دھنستی۔