سیاستدانوں کی خوش فہمیاں ،زعم اور اہلیت

سیاستدانوں کی خوش فہمیاں ،زعم اور اہلیت

11مئی کے انتخابی عمل کے نتائج کی نفی ہوئی تو قوم کے دلوں میں ےہ شک و شبہ مزید گہری جڑیں پکڑ جائے گا کہ عمران خان نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کے جو الزامات اپنے ڈھائی ہزار صفحات پر مبنی وائٹ پیپر میں لگائے ہےں ان میں کافی حد تک صداقت ہے۔ دراصل 11مئی کے انتخابات گلوبل حکمتِ عملی کے تحت کروائے گئے تھے اور بدقسمتی سے عمران خان اور دیگر سیاسی جماعتوں کو اس کا اَدارک نہیں ہوا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے ریاست کو بچانے کا نیا وژن دیا جس کو گلوبل حکمتِ عملی تیار کرنے والی فوکل سیریز نے ناکام بنا دیا۔
 5ستمبر2006ءکو وائٹ ہاﺅس واشنگٹن میں پاکستان کی جن بڑی اہم شخصیات کو مدعو کرنے کے دعوت نامے جاری ہو گئے تھے، تو مجھے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے مدعو کیا تھا، لےکن میں نے ان کے ارادے کو بھانپ لیا تھا اور ان کی پیش کش کو قبول کرنے پر معذرت کر لی تھی۔ اِسی طرح جب دیگر ان شخصیات کوبھی معذرت کرنی پڑی مگر جناب شوکت عزیز صاحب کو یاد ہو تو وہ بھی میرے مو¿قف کی تائید کریں گے ۔
دھاندلی کے الزامات آج تک کسی بھی موقع پر ثابت نہیں کئے جاسکے اور دھاندلی کے الزامات کے بارے میں جوسلسلہ 1954ءکے الےکشن سے شروع ہوا تھا ، کبھی ختم نہیں ہوا۔ دوسرے الفاظ میں موجودہ پارلیمانی نظام کے تحت مکمل ہونے والے کسی بھی انتخابی عمل کو مثبت ردِ عمل نہیں مل سکا۔ اگر دھاندلی کے الزامات کی چھان بین میں دیانت داری کے ساتھ کر لی جائے اور ثابت کر دیا جائے کہ پندرہ سو ووٹوں والے پولنگ سٹیشن پر آٹھ ہزار ووٹ نہیں پڑے تو حقیقت سامنے آجائے گی۔
اگر الےکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ فارمXVIاور فارم XVIIاور فارمXIVجن کو عوامی نمائندگی اےکٹ76اور عوامی نمائندگی رولز 76کے تحت قانونی دستاویزات شمار کیا جاتا ہے ، کے نتائج ویب سائٹ پر ظاہر کر دئےے جائیں تو پاکستان میں وہ سول سوسائٹیاں جو انتخابی نظام پر گہری نظر رکھتی ہےں ان کو تحقیق کرنے میں آسانی پیدا ہو جائے گی اور وہ انتہائی مختصراً وقت میں صحیح حقائق قوم کے سامنے لے آئیں گے کیونکہ ان سول سوسائٹیوں کے ہاں تجربہ کار ماہرین کی سہولتیں موجود ہےں۔ اور جن جن حلقوں میں 80فیصد سے زائد ووٹ کاسٹ ہوئے ہےں، ان کے انگوٹھے کے نشانات کی تصدیق کے لئے نادرہ سے رجوع کیا جاسکتا ہے کونکہ انتخابی سسٹم کے حوالہ سے ےہ بین الاقوامی مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں سو فیصد ووٹ کاسٹ نہیں ہوتے۔
 اِسی طرح ضمنی الےکشن میں بعض نجی ٹیلی ویژن نے سوا چار بجے ووٹوں کی گنتی کا عمل دکھانا شروع کر دیا تھا۔ ان نجی ٹیلی ویژن کا ریکارڈ محفوظ کر لیا جائے اور باقاعدہ تحقیقات کا عمل شروع کیا جائے کہ متعلقہ پریذائڈنگ آفیسران نے سوا چار بجے ووٹوں کی گنتی ختم کر کے رزلٹ میڈیا کے حوالہ کر دیا۔ ےہ اصولی طور پر عوامی نمائندگی ایکٹ76کے صریحاً خلاف ورزی ہے۔
اس کی باضابطہ طور پر تحقیقات کی جائے اور ان حلقوں میں حتمی رزلٹ کو روک لیا جائے اور تحقیق مکمل ہونے پر ےہ ثابت ہو جائے کہ متعلقہ پریذائڈنگ آفیسران نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو ان پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخابی عمل شروع کیا جائے اور ریٹرنگ آفیسران کے ذرےعے ان پریذائڈنگ آفیسران کے خلاف باضابطہ طور پر عوامی نمائندگی اےکٹ 96کی دفعہ77-78کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے۔
دراصل اس انتخابی نظام خرابی میں قانونی سقم کو دور کرنے کی کسی کو دلچسپی نہیں ہے۔ دلچسپی صرف اقتدار حاصل کرنے اور اقتدار میں رہنے سے ہے۔ عوام توقع کر رہے تھے کہ اس نظام میں حقیقی، عوامی ، اسلامی اور کسی انقلابی تبدیلی کو بروئے کار لانے میں عمران خان اپنا کردار ادا کریں گے لےکن پاکستان کے بے کس، مظلوم، لاچار اور غریب عوام کو ان کے روےے، ان کی بے وزن پالیسی کو دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ کیونکہ جو سیاسی رہنما اس نظام کو قائم رکھنا چاہتے ہےں وہ کبھی اس نظام کی بنیادیں ملنے نہیں دیں گے کیونکہ ان کے بڑے بنیادی مفادات کی جڑیں اِسی نظام میں ہےں۔ انقلابی تبدیلی کی خواہش تو شاید میاں نواز شریف، عمران خان، مسٹر آصف علی زرداری، الطاف حسین اور اسفند یار ولی خان میں بھی ہو لےکن وہ ےہ بات کیسے بھول جائیں کہ ان کی بزنس ایمپائر نے اسی نظام کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور اپنی اَنا، ذاتی مفادات اور اقتدار کی اس ایمپائر کے پھلتے پھولتے رہنے کا انحصار بھی اِسی نظام کی بقاءپر ہے۔
تحریکِ انصاف کا عروج30اکتوبر2011ءکے بعد شروع ہوا اور زوال 22اگست2013ءکو شروع ہو گیا۔ 2012ءکے آغاز میں وہ مقبول ترین پارٹی تھی، پھر چار کے ٹولے کی ہمالےہ جیسی غلطیوں کا تباہ کن سلسلہ شروع ہوا۔ سونامی تباہی 11مئی کو ٹکٹ جاری کرنے کے بے تکے طریقہ کار کے ہنگامہ سے ہوئی۔ عمران خان کو خوشامدیوں اور اپنی الوقتوں نے گھیر رکھا ہے۔
میں نے عمران خان کو مارچ 2013ءمیں اسلام آباد ائرپورٹ کے وی۔آئی۔پی لاﺅنج میں ملاقات کے دوران بتایا تھا کہ 11مئی کے 2013ءکے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ان کو 75ہزار پولنگ سٹیشنوں پر 3لاکھ بوتھ کے لئے کم و بیش 3لاکھ تربیت یافتہ، مضبوط کردار، باحوصلہ اور پارٹی کے جانثار پولنگ ایجنٹ کا لشکر تیار کرنا ہو گا تو عمران خانے نے طنزےہ مسکراہٹ میں بڑے تکبر سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ کنور صاحب آپ 3لاکھ پولنگ ایجنٹوں کی بات کر رہے ہےں میں نے دس لاکھ رضاکاروں کی ٹیم تیار کر رکھی ہے جو 75ہزار پولنگ سٹیشنوں کی حفاظت کرے گی۔
 میں نے بے ساختہ کہاکہ دس لاکھ گارڈ ز پر تو صدر صدام حسین کو بھی بڑا بھروسہ تھا۔ لےکن جونہی کارپٹ حملہ ہوا تو وہ ٹینکوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اِسی طرح11مئی کی انتخابی جنگ کے دوران 90فیصد مقامات پر پولنگ ایجنٹ موجود ہی نہیں تھے۔ غلطیاں نہیں مجرمانہ کوتاہی، کیا عمران خان اس کے ذمہ دار نہیں تھے۔
عمران خان نے برملا اعتراف کیا کہ ان کے پولنگ ایجنٹ غائب تھے۔ اور سب سے اہم بات ےہ ہوئی جس کا عمران خان کو اِدارک ہی نہیں ہوا کہ ان کی سب سے بڑی حریف جماعتوں نے اپنے ورکرز ان کی صف میں بھجوا دئےے اور ان کے کارکنوں نے عین موقع پر منافقین کا عمل ثبوت پیش کر دیا۔
پاکستان کو درپیش مشکلات کے بے شمار اسباب میں سے سب سے اہم سبب پاکستان قومی اداروں کے مابین اتفاق رائے کا فقدان ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے اِرد گرد نہاری، حلیم اور گول گپے کا اےک جمِ غفیر ہے اور اِسی لئے طاقت کی تکون ابہام پیدا کرنے کا باعث بنتی رہی ہے۔ طاقت، اقتدار، آئین اور پارلیمنٹ کا اےک ہی بنیادی مرکز ہونا چاہےے۔ نواز شریف اداروں کے مابین اہم قومی اُمور پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام ہو جائیں گے کیونکہ ان کا مطالعہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کا ملکی اور بین الاقوامی اُمور پر دسترس حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا پاکستان مسلم لیگ (ن) کو کارکردگی دکھانا ہو گی۔ حکمرانی میں وگرنہ خلاءپیدا ہو گا۔ اس خلاءکو تحریکِ انصاف پُر نہیں کر پائے گی تو پھر ملک میں اےک بہت بڑی سیاسی پارٹی نمودار ہو رہی ہے جو اےک کروڑ ورکروں کو ساتھ لےکر چلنے کا عزم رکھے ہوئے ہے۔ اگر وہ سیاسی و مذہبی پارٹی ناکام ہو گئی ، تو خدا کرے میرا اندازہ غلط ہو، ملک میں مارشلاءکا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
صوبہ خیبر پختون خواہ میں تحریکِ انصاف کی حکومت تو نواز شریف کے مرہونِ منت ہے اور بین الاقوامی حکمت عملی کے تحریکِ انصاف کے چار کے ٹولہ کی ملی بھگت سے اس صوبہ کی باگ ڈور پرویز خٹک کو دی گئی ہے۔ جوں جوں عمران خان پنجاب کی طرف بڑھیں گے ، توں توں صوبہ خیبر پختون خواہ میں ان کی حکومت گرا دی جائے گی۔

کنور دلشاد....شاہراہ دستور سے

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...