سیاست دان معاملات کو الجھانے سے گریز کریں

یکم ستمبر کو اعوامی تحریک اور تحریک انصاف کے کارکنوں نے پاک سیکرٹریٹ کا گیٹ توڑ دیا جس کے نتیجہ میں پولیس اہل کار اور اسلام آباد کے ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو سمیت درجنوں افراد بھی زخمی ہو گئے مارگلہ روڈ پر پولیس نے بھی مظاہرین پر شیلنگ کی ۔ عوامی تحریک کے کارکن پی ٹی وی کے دفتر میں بھی گھس گئے جنہیں وہاں سے فوج اور رینجرزنے نکالا۔ گذشتہ ہفتے کی رات کو پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے ڈنڈوں اور غلیلوں سے لیس مظاہرین نے وزیر اعظم ہاوس میں گھسنے کی کو شش کی جنہیں روکنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کے شیل پھینکے اور ربڑ کی گولیاں فائر کیں ۔تحریک انصاف 30اگست کی رات کو عدالتی کمیشن کو قبول کرنے پر تیار ہو گئی تھی حکومتی ٹیم کو اتوار کو اس بارے میں جواب دینا تھا تو پھر رات گئے دھرنوں کو وزیر اعظم ہائوس منتقل نہیں کرنا چاہیے تھاجب دونوں تحریکوں کی قیادت کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ریڈ لائن عبور نہیں کی جائے گی تو پھر انہیں ریڈ لائن عبور نہیں کرنی چاہیے تھی انکے اس اقدام سے اسلام آباد میں تصادم کا سلسلہ شروع ہو گیا ریڈ زون ان دنوں میدان جنگ بنا ہوا ہے حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری کی سخت ڈھٹائی پر مبنی کوششیں پورے پاکستان کو تباہی کے گڑھے میں گرانے کے مترادف ہیں اور ان کا یہ کھیل بد ترین دہشت گردی سے بھی زیادہ خطرناک ہے ،میں نے لکھا تھا کہ افواج پاکستان کا کام ملک و عوام کو صرف بیرونی دشمنوں سے تحفظ فراہم کرنا نہیں ہے بلکہ جو لوگ اندرونی طور پر ملک دشمنی آئین شکنی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ان کیخلاف فوجی کاروائی نہ سہی انہیں متنبہ تو کیا جا سکتا ہے کہ بس بہت ہو چکا ۔ اب اگر وہ باز نہ آئے تو انہیں ملک دشمن تصور کر کے وہی کیا جائیگا جو ملک دشمنوں کے ساتھ کیا جاتا ہے، لیکن آرمی چیف نے اتنے سخت الفاظ میں فسادی سیاست دانوں کوانتباہ نہیں دیا، چناچہ وہ مزید پھیلنے لگے اور نواز شریف کوالاعلان جھوٹ بھی ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔فوج کے علم میں غالباً یہ بات ہے کہ انتہائی ڈھٹائی اور حالات کو بدترین رخ دینے والی مذکورہ دونوں شخصیات کا فوج کی سختی کے باعث مشن کامیاب ہو جائے گا اور کچھ لاشیں حاصل کر کے پاکستان اور اس کی فوج کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کے ایجنڈے میں کامیاب ہو جائینگے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے تو کہہ دیا ہے کہ نہ استعفیٰ دوں کا اور نہ ہی چھٹی پر جائوں گا ۔آرمی چیف راحیل شریف نے بھی کہہ دیا ہے کہ میں نے وزیر اعظم نواز شریف کو استعفیٰ دینے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا ۔آرمی چیف کے بیان سے نواز شریف کی پوزیشن بہت بہتر ہو گئی ہے۔حکومت کے موقف کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک بار پھر واضع کر دیا ہے کہ چند مٹھی بھر لوگوں کے کہنے پر وزیر اعظم ہر گز مستعفی نہیں ہونگے تاہم اگر آزاد عدالتی کمیشن کے ذریعے یہ ثابت ہو جائے کہ 2013ء کے انتخابات میں میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) نے زبردست دھاندلی کر کے حکومت پر قبضہ کیا ہے تو صرف وزارت عظمیٰ سے مستعفی نہیں ہوں گئے بلکہ انکی حکومت اور اسمبلیوں کے ارکان بھی استعفے دے دینگے یاد رہے کہ گذشتہ انتخابی عمل پر تحفظات کے ساتھ (جو ہر دور میں حریف امیدواروں کی طرف سے سامنے آتے ہیں عمران خان سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے نتائج کو قبول کر لیا تھا۔
 تحریک انصاف کے اکتیس ارکان قومی اسمبلی اپنے استعفے قومی اسپیکر کے پاس جمع کروا چکے ہیں ، لیکن عمران خان اور ان کو اکسانے والے شیخ رشید نے اب تک اپنے استعفے نہیں بھیجے ہیں ، اس سے بھی زیادہ دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ’’دھاندلی والے‘‘انہی انتخابات کے نتیجے میں خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت بدستور قائم ہے۔ عمران خان نے اسے بر طرف کر کے اپنی سیاسی بلوغت اور سیاسی برتری کا ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔ آرمی چیف عمران خان کی ملاقات اور اپنے غلط موقف پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی انہیں چھوڑ گئے ہیں انہوں نے عمران خان پریہ بھی الزام لگایا ہے کہ انہوں نے پارٹی کے قومی اسمبلی کے ارکان سے زبردستی استعفے لئے ہیں۔اس وقت سیاسی تعطل جاری ہے جس نے وفاقی دارلحکومت کو مفلوج کر دیا ہوا ہے۔سیاسی بحران اور زرائع ابلاغ سے اس کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ نے شہریوں کے اعصاب کو توڑ کر رکھ دیا ہے اسکے براہ راست اثرات معاشی سر گرمی پر بھی پڑ رہے ہیں جب بھی معاشی سرگرمی پر کوئی منفی اثر پڑتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ اثر روز کے روز مزدوری کرنیوالوں کی روزی پر پڑتا ہے۔ اشیائے ضرورت کی قیمتوں پر روز مرہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے ہر فریق جمہوریت اور عوام کی نمائندگی کو مقدس قرار دے رہا ہے۔ لیکن سب اسی کوئے ملامت پر حاضر ہیں جس کی حکمرانی نے پاکستان کو مسائل کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔جب سیاسی بحران کا آغاز ہوا تھا تو اسی وقت خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ کہیں تیسری قوت یعنی فوج سیاسی بساط کو لپیٹ کر پھر ڈرائیونگ سیٹ پر نہ بیٹھ جائے۔سیاسی بحران قومی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کر رہا ہے حکومت اور تحریک انصاف کی جانب سے مذاکرات ایک اور دور بے نتیجہ ہونے کے باعث یہ خدشہ تقویت پکڑ رہا ہے کہ کہیں خون خرابہ کی نوبت نہ آجائے اس لیے اب بھی وقت ہے ملک کے سٹیک ہولڈر ہوش کے ناخن لیں اور ملک میں انتشار اور انارکی پھیلنے سے پہلے ہی وقت کی نزاکت کو سمجھیں اسی میں ملک کی بقا اور سلامتی ہے ۔ اگر اب بھی فیصلے کرنے میں تاخیر کی گئی تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑسکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن