چند روز پہلے فوج کے ترجمان نے کہا تھا ریڈ زون اور شاہراہِ دستور پر واقع عمارتیں ریاست کے وقار کی علامتیں ہیں۔ انکی حفاظت فوج کریگی۔ آئین کے باغی ڈنڈہ بردار ریاستی وقار کی سب سے بڑی علامت پارلیمنٹ ہاؤس کی چاردیواری توڑ کر اندرآگھسے تو یوں لگا کہ مادِر وطن کا سَتر اُتر گیاہے۔ حکمرانوں کی طرزِ حکمرانی سے سو اختلاف ہیں، ذاتی شکائتیں بھی بہت ہیں مگرتم نے تومیرے پاکستان کو بے وقار کردیا۔ تم نے مادِر وطن کو پوری دنیا میں رُسواکردیا۔ ایٹمی قوّت ہونے کے ناطے،___ میَں__ ہر ملک میں سراٹھا کر پھرتا تھا، تم نے میرے شاندار ملک کو روانڈا سے بدتر بنادیا!! دل کا سارا دکھ، اضطراب اور کرب، آنکھوں کے ذریعے بہہ نکلا۔ قائدؒ کی روح یقینا تڑپ رہی ہوگی!! مگر Misguided بلوائیوں کو روکا کیوں نہ گیا؟ ہر باشعورشخص یہی پوچھ رہا ہے کہ ریاست کیوں پسپا ہوگئی؟ وزیرِ داخلہ ملک کے سب سے محترم ادارے اور پاکستان کے قومی نشریاتی ادارے پر حملے روکنے کا بندوبست کیوںنہ کرسکے؟ کہاں تھی پولیس؟ ایٹمی قّوت کے بارے میں دنیا بھر میں یہ خوفناک تاثر گیا کہ یہ تو ایک Banana Republicہے جہاں ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں ہیں۔ کون ہے اس کا ذمہ دار؟پولیس کے سینئر افسر (جو مشکل وقت آنے پر میدان میں کھڑے نہ ہوسکے اور سپاہ کو بے یارومددگار چھوڑ کرسفارشوںکے ذریعے چھٹی منظور کراکے دم دبا کر بھاگ گئے) کس کی سفارش سے تعینات کئے گئے تھے؟ ایس ایس پی جونیجو کو اکیلا چھوڑ کر بھاگ جانے والے بے غیرت پولیس والے صحافیوں پر کیوں چڑھ دوڑے؟ کہاں گئے رینجرز؟ اور کہاں تھی ان عمارتوں کی حفاظت کی ذمہ دار فوج؟ کیڈٹ کالج کے ایک دوست ریٹائرڈ جنرل سے پوچھا کہ اگر کہیں فوج کی فائرنگ سے کوئی شخص ہلاک ہوا ہو اور ہلاکت پر احتجاج کرنے والے مظاہرین بریگیڈ کمانڈ رکے دفتر پر آکر ہَلّہ بول دیں ، اس کی چاردیواری پر چڑھ جائیں یا اسے توڑنے لگیں تو فوج اس ہجوم کو کیسے ڈیل کریگی؟ ایک لمحے کے توقّف کے بغیر جنرل نے کہا،' فوجی گارڈ حملہ آوروںکو بھون ڈالیں گے'!! تو کیا پاکستان کے سب سے محترم ادارے کا تقدّس ایک بریگیڈ ئیرکے دفتر جتنا بھی نہیں ہے؟فوج نے حملہ آوروں کو کیوں نہ روکا؟ انہیں گرفتار کیوں نہ کیا؟ عمران خان صاحب! آپ تو اس ملک میں ایک بڑے لیڈر کے طور پر ابھرے تھے۔نوجوانوں کو آپ نے صحیح سمت دکھانا تھی۔ آپ اپنے ورکروں کو ملک کے وقار کی علامتوں پر چڑھ دوڑنے کی ترغیب دیتے رہے۔ یہ ادارے ن لیگ یا وزیرِ اعظم کے نہیں ہیں یہ تو میرے، آپ کے اور پوری قوم کی عزّت کے سِمبل ہیں۔آپ کو اندازہ نہیں کہ قومی اداروں کی تذلیل سے آپ کا امیج کس قدر خراب ہوا ہے!
تبدیلی ضرور آنی چاہیے۔ نظام میں بھی اور عوام میں بھی۔ عوام کی زندگی میں بھی، مگر اس طریقے سے جو مہذّب قومیں اختیارکرتی ہیں۔ بارہویں یاتیرہویں صدی والے طریقوں سے نہیں ___ایسے طریقے سے نہیں جس سے ریاست کی بنیادیں ہِل جائیں،ایسے طرزِ عمل سے نہیں جس سے دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہو۔ آئین میں کچھ تبدیلیاں فوری اور ناگزیر ہیں!! پارلیمنٹ کی پانچ سالہ مدّت بہت طویل ہے ۔بے تاب اپوزیشن اور بیقرار عوام کیلئے اتنا طویل عرصہ انتظارکرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ آسٹریلیا میں پارلیمنٹ کی مدّت تین سال ہے، امریکہ اور برطانیہ میں چار سال ہے۔ ہمارے ہاں بھی پارلیمنٹ کی مدّت چارسال ہونی چاہیے۔ اس کیلئے فوری طور پر آئینی ترمیم ہونی چاہیے۔
بلدیاتی نظام جمہوریت کیلئے بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں بلدیاتی اداروں کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصّور نہیں ہے۔ ویسے بھی یہ حکومتوں کی آئینی ذمہ داری ہے کہ لوکل باڈیز کے انتخابات کراکے مقامی حکومتیں قائم کریں ۔ اختیارات اپنے سے جداکرنا صوبائی حکومتوں کیلئے مشکل ہوتا ہے مگرآئینی تقاضا پوراکرنے کی غرض سے فوری طور پر لوکل باڈیز کے انتخابات کا اعلان ہونا چاہیے۔
صوبائی خودمختاری کی اہمیّت بجا مگر اٹھارویں ترمیم نے فیڈریشن اور صوبوں کے درمیان اختیارات کا توازن بری طرح بگاڑدیا ہے۔ اسی متنازعہ ترمیم کے تحت ایک مضحکہ خیز قانون یہ بنایا گیا کہ قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف مل کر نیب کے چیئرمین کا انتخاب کرینگے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ کرپشن کیسوں کے سب سے بڑے تفتیشی ادارے ایف آئی اے کے دانت نکال دئیے گئے ہیںاور اسے وزارتِ داخلہ کی باندی بنادیا گیا ہے۔ ایف آئی اے وزارتِ داخلہ کی اجازت کے بغیر کسی بددیانت اور لٹیرے کیخلاف تفتیش کرسکتی ہے نہ اسے گرفتار کرسکتی ہے۔ کرپشن کی روک تھام کیلئے اپنے وسیع اختیارات کے باعث نیب بڑا موثر کردار اداکرسکتا ہے لیکن وہ نیب جو آزاد ہو__اگر حکومت اور اپوزیشن مل کر چیئرمین کا تقرر کریں گی یعنی چیئرمین دونوں کا پسندیدہ ہوگا تو وہ دونوں بڑی پارٹیوں کے کرپشن میں ملوث ارکان کیخلاف کیسے کارروائی کرسکے گا؟۔چیئرمین نیب کی تقرری کے موجودہ طریقہ کار سے نیب کے بھی دانت نکال دئیے گئے ہیں۔ اس طرح مقررکردہ چیئرمین حکومت اور اپوزیشن کو ناراض کرنے کی کبھی جرأت نہیں کریگا وہ صرف دکھاوے کیلئے چھوٹے موٹے سرکاری افسروں کیخلاف کارروائی کرتا رہے گا مگر سیاستدان احتساب سے مستثنیٰ ہو جائینگے۔عملی طور پر احتساب کے ادارے غیر موثرہوچکے ہیں اسلئے آئین میں بھی فوری تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ایف آئی اے کو انڈیا کی CBIکی طرح آزاد اور غیر جانبدار ادارہ بنایا جائے اور نیب کا چیئرمین سرچ کمیٹی کے ذریعے مقرر کیا جائے۔
مادِروطن کو مزید رُسوانہ کرو!
Sep 03, 2014