احسان شوکت
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد جہاں لاہور پولیس میں بڑے پیمانے پر اکھاڑبچھاڑ ہوئی ،وہیں اس وقت کے سی سی پی او چوہدری شفیق گجر کو بھی ان کے عہدے سے ہٹادیا گیا اور ذوالفقار حمید کو سی سی پی او کا اضافی چارج دے دیا گیا۔جس کے بعد گزشتہ دونوں ایڈیشنل آئی جی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) پنجاب محمد امین وینس کو سی سی پی او لاہور کی خالی آسامی پر تعینات کر دیا گیاہے۔جس پر نوائے وقت نے سی سی پی او آفس میں ان سے خصوصی گفتگو کی ۔اس دوران سی سی پی او کے پی آر او سید نایاب حیدر بھی موجود تھے۔ سولہویںکامن سے تعلق رکھنے والے نئے سی سی پی او محمد امین وینس 1960 میںضلع جھنگ میں پیدا ہوئے۔امین وینس نے1988 میں بطوراے ایس پی پنجاب پولیس میں شمولیت اختیارکی۔انہیں 1994 میں ایس پی کے عہدے پر ترقی دی گئی۔امین وینس دوران ملازمت بطور ایس پی ، ایس ایس پی اور ڈی آئی جی پنجاب کے مختلف شہروںلاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، سیالکوٹ ، ڈی جی خان اور فیڈرل گورنمنٹ جبکہ اے آئی جی ڈویلپمنٹ بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔وہ بطورڈی آئی جی،وی وی آئی پی سیکیورٹی سپیشل برانچ، ٹریفک پنجاب اور سیکیورٹی ڈویژن لاہور بھی خدمات سراانجام دے چکے ہیں۔انہوں نے بطور آر پی اوگوجرانوالہ اور ملتان کے عہدوںپربھی کام کیا۔امین وینس کو 2014 میں ہی ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی پنجاب تعینات کیا گیاتھا ۔سی سی پی او لاہور کیپٹن( ر) امین وینس نے کہا ہے کہ میں اللہ رب العزت کا شکر گزار ہوں جس نے مجھے لاہور جیسے میگا سٹی میں لاہور پولیس کی کمانڈ کا موقع دیا ۔ شہریوں کے جان و مال کا تحفظ اور امن و امان کا قیام پولیس کی اولین ذمہ داری ہے ۔جس سے عہدہ برآہ ہونے کے لیے پولیس فورس کو اپنے فرائض عبادت سمجھ کر ادا کرتے ہوئے خلق خدا کی بہتری کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کرنی چاہیں اورہم اس امر کو یقینی بنائیں کہ شہریوں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئیں خاص کر تھانے میں آنے والے سائلوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہوئے ان کے مسائل کے حل کے لیے فوری اور عملی اقدامات کیے جائیں۔ سٹریٹ کرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے بیٹ سسٹم کو مزید موثر بنایا جائے اور جس بیٹ میں واردات ہو، وہاں کے ایس ڈی پی او اور ایس ایچ او کے ساتھ ساتھ بیٹ انچارج کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ اشتہاریوں اور عدالتی مفروروں کی گرفتاری کے لیے موثر اور جامع حکمت عملی اپنائی جائے گی تا کہ شہر کے جرائم میں اہم کردار ادا کرنے والے ان اشتہاریوں کو قانون کی گرفت میں لا کر جرائم کا خاتمہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ لاہور کے شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے خلوص نیت اور جذبے سے کام کرنے کی ضرورت ہے جو پولیس افسر اور اہلکار شہریوں کے مسائل کے حل اور ان کے جان و مال کے تحفظ کے لیے خلوص نیت سے کام کرے گا اس کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی کی جائے گی ۔ایس ڈی پی اوز اس بات پر خصوصی توجہ دیں کہ وہ اور ان کے زیر انتظام ایس ایچ اوز اور بیٹ انچارجز اپنے علاقے کے معززین اور شرفا سے قریبی رابطہ رکھیں تاکہ پولیس اور عوام کے باہمی رابطے اور تعاون سے معاشرے سے جرائم کی بیخ کنی کی جائے۔ کیپٹن (ر) امین وینس نے کہا کہ لاہور پولیس میں انٹیلی جنس کے نظام کو مزید موثر اور مربوط
بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے گا تا کہ انٹیلی جنس کے نیٹ ورک کو ایکٹو بنا کر جرائم پیشہ افراد کے خلاف موثر کاروائیاں عمل میں لائی جا سکیں۔میں نے ہدایت کی ہے کہ تمام ایس ڈی پی اوز اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایس ایچ اوز صبح اور شام میں مخصوص اوقات کار کے دوران تھانوں میںضرور موجود رہیں تا کہ شہریوںتک ان کی رسائی ممکن ہو اور وہ ان کے مسائل بذات خود سن کر ان کی داد رسی کے لیے فوری کاروائی عمل میں لا سکیں۔کیپٹن (ر) امین وینس نے کہا کہ ایس ایچ او اور انچارج انویسٹی گیشن دونوں ہی تھانے کے کرائم اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کے برابر کے ذمہ دار ہوں گے اور جس تھانے میں شہریوں کے مسائل کو حل کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا گیا یا تھانے میں آنے والے سائلوں اور شہروں کے ساتھ بد اخلاقی کی شکایت موصول ہوئی تو اس تھانے کے ایس ایچ او او ر انچارج انویسٹی گیشن کے ساتھ ساتھ محرر کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور ان کے خلاف سخت محکمانہ کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ تھانوں میں بیٹ سسٹم کے نفاذ کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا اور ہر بیٹ انچارج کو ایس ایچ او کی طرز پر بااختیار کیا جائے گاجبکہ ایس ایچ او کی طرح ہر جرائم کے لیے بیٹ انچارج کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ ایس ایچ او ز تھانوں سے بلا مقصد غیر حاضر ہونے کے رویے کو فوری ترک کرتے ہوئے تھانوں میں اپنی حاضری کو یقینی بنائیں اور بلا مقصد گشت اور ناکوں پر کھڑے رہنے سے گریز کریں۔ شہر میں کسی بھی صورت ناجائز قبضوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور جس تھانے کی حدود میں کسی بھی شہری کی جگہ پر ناجائز قبضہ ہوا اس تھانے کا ایس ایچ او اور انچارج انویسٹی گیشن کے خلاف سخت محکمانہ اور قانونی کاروائی کی جائے۔ تمام ایس ایچ اوز اپنے علاقے میں معززین علاقہ اور اچھی شہرت رکھنے والے افراد سے قریبی رابطہ رکھیںا ور جرائم کے کنٹرول اور جرائم پیشہ افراد کے بارے میں اطلاعات کے حصول کے لیے شہریوں کا ہر ممکن تعاون حاصل کریں۔ ایس ایچ اوز اپنے تھانوں میں انٹیلی جنس کے نظام کو مزید مربوط اور موثر بنائیں اور اس لائن پر عمل کریں گے۔ تھانے میں ڈیوٹی دینے والا ہر کانسٹیبل سے لے کر تمام اہلکار اورتھانے میں صفائی کرنے والا خاکروب بھی ہر مہینے میں ایک برائی کے حوالے سے ایس ایچ او کو ضرور اطلاع دے گا۔ ایس ایچ او ،ڈی ایس پی اور ایس پی اپنے علاقوں میں کرائم کنٹرول کرنے پر خصوصی توجہ دیںاور شہریوں سے اچھا سلوک کیا جائے ۔ کرپشن ، فرائض میں غفلت اور شہریوں سے بدسلوکی کرنے والے ایس ایچ او کے خلاف فوری ایکشن لیا جائیگا۔سی سی پی او لاہور کیپٹن( ر) امین وینس نے کہا ہے کہ پولیس حکام ناکوں کے علاوہ دیگر سکیورٹی ڈیوٹی و گشت پر ماموراہلکاروں پر بھی خصوصی توجہ دیں اور اہلکاروں کو سرکلز میں آئوٹ ہونے سے پہلے مکمل بریف کریں ۔ انہوں نے موجودہ حالات کے حوالے سے کہا کہ پولیس فورس کو انتہائی نظم و ضبط اور اتحا د کی سخت ضرورت ہے۔ تمام افسران اپنے ماتحت ڈیوٹی سرانجام دینے والے اہلکاروں کا مورال بلند رکھیں۔ شہریوں کے ساتھ انتہائی نرم رویہ رکھیں اور انہیں اس بات پر قائل کر یں کہ ایسی تمام تر کوششیں صرف اور صرف شہریوں کے جان و مال اور املاک کی حفاظت کے لئے ہی کی جاتی ہیں اور اس احساس کو اجاگر کریں کہ
پولیس شہریوں کے جان و مال و املاک کی حفاظت کیلئے ہر دم جستجو ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس میں موجود کرپٹ اہلکاروں کا محاسبہ کرونگا جو کہ اپنی وردی کا غلط استعمال کر تے ہیں اور ایسے عناصر کو نہ صرف محکمہ سے نکال باہر کیا جائے گا بلکہ ان کے خلاف قانونی کاروائی بھی عمل میں لائی جائے گی انہوں نے مزید کہا کہ اکثر شکایات موصول ہوتی ہیں کہ پولیس اہلکار عدم برداشت کا مظاہر ہ کرتے ہیں جو کہ ہر گز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ جوانوں کے لئے جلد ہی ایک ضابطہ اخلاق بھی مرتب کیا جائے گا ۔اس کے علاوہ ہر کسی کو پر امن احتجاج کی اجازت ہے مگرکسی بھی شخص یا جماعت کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر کوئی شخص امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی کوشش کرے تو اس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف کو میں نے تمام ڈویژنل ایس پیز کو ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز کے ساتھ ماہانہ میٹنگ کرنے کی بھی ہدایت کی اور کہا کہ ایک پولیس افسر کی اولین ترجیح اپنے علاقے میں کرائم کنٹرول کرنے اور لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کرنا ہونی چاہئے۔میں یقین سے کہتا ہوں کہ اگر ایس ایچ اوز نے اس لائن پر اپنا انٹیلی جنس نظام بنا لیا تو ہم لاہور کے کرائم گراف میں واضح کمی لانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن اس کے لیے نیک نیتی اور جذبہ خدمت خلق بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ تمام تھانوں اور ایس ڈی پی اوز کے دفاتر کے باعث شکایت باکس لگوائے جائیں گے۔ جن کے تالے کی چابی ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کے پاس ہو اور جو شہری بھی پولیس کو کوئی اطلاع دینا چاہے اور اپنا نام سامنے نہ لانا چاہے وہ اپنی اطلاع یا شکایت اس باکس میں ڈال دے۔ ایسی شکایات اور اطلاعات پر تحقیق کے بعد فوری کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
کیپٹن (ر) محمد امین وینس نے کہا ہے کہبطور سی سی پی او لاہور تعیناتی کے بعد ویسے تو درپیش چیلنجز کے حوالے سے فہرست کافی طویل ہے لیکن میں نے اس حوالے سے ایک ترجیحی لسٹ اپنے ذہن میں تیار کر رکھی ہے جسے انشا اللہ چند روز میں عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک مربوط پالیسی تشکیل دی جائے گی ۔ جس کا محورعام آدمی ہو گا ۔میری پہلی ترجیح یہ ہو گی کہ عام آدمی کو ہم کس طرح ریلیف دے سکتے ہیں اور اس کی عزت کو بڑھاتے ہوئے اس کے مسائل کی داد رسی کے لئے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتے ہیں ۔ اسکے علاوہ پولیس فورس کے مورال کو بلند کرنا اور انہیں فرائض کی بجا آوری کے حوالے سے ذہنی طور پر تیار کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں یہ جذبہ پیدا کرنا کہ وہ اپنے فرائض کو عبادت سمجھ کر ادا کریں ۔پولیس فورس میںانٹیلی جنس کے نظام کو بہتر سے بہتر کیا جائے ۔ قبضہ گروپوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے، مظلوم کی داد رسی کے لئے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں جبکہ ظالم ، بدمعاشوں اور جرائم پیشہ افراد کے گرد گھیرا اس قدر تنگ کر دیا جائے کہ یا تو وہ اپنی روش بدل لیں یا پھر شہر چھوڑ جائیں ۔ میں نے جیسا کہ پہلے بھی کہا کہ چیلنجز تو بہت سے ہیں لیکن ان چیلنجز سے نمٹنے کے لئے جو بنیادی پالیسی بنائی جا رہی ہے اس پالیسی میں ترجیحات مقرر کی جائیں گی کہ پہلے مرحلے میں کن چیلنجز سے نمٹنا ہے ۔پولیس اور شہریوں کے درمیان جو خلیج پیدا ہو گئی ہے اس خلیج کی دوری میرے لئے بہت بڑا چیلنج ہے اور میں انشااللہ آپ کو یہ بات پورے اعتماد سے کہنا چاہتا ہوں کہ میں اس خلیج کو دور کرنے اور شہریوں اور عوام کے درمیان اعتماد کو بحال کرنے کے لئے یونین کونسل اور تھانوں کی سطح پر پولیس اور معززین علاقہ اور نیک نام شہریوں پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دے کر نہ صرف انہیں با اختیار کروں گا بلکہ جرائم کے خاتمے اور امن و امان کے قیام میں یہ کمیٹیاں بنیادی کردار ادا رکیں گی کیونکہ عوامی تعاون کے بغیر کسی بھی ملک ، شہر اورمعاشرے سے جرائم کو ختم نہیں کیا جاسکتا اس کے لئے کمیونٹی پالیسنگ کو فروغ دیا جائے گا۔ تاجروں کے مسائل کے حل کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے جبکہ پولیس اور تاجروں کے نمائندوں پر مشتمل اصلاحی کمیٹیاں بھی تشکیل دی جائیں گی۔ جو باہمی مشاورت سے ان مسائل کے جلد حل میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں گیشہریوں اور پولیس کے تعاون سے جرائم کے خاتمے اور جرائم پیشہ افراد کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا ۔ اشتہاریوں کی گرفتاری اور شہر سے سٹریٹ کرائم کا خاتمہ بھی پولیس کو درپیش چیلنجز میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں جس کے لئے ناکہ بندی اورپٹرولنگ کا ایسا موثر اور قابل عمل سسٹم وضع کیا جائے گا جس کے نتائج مختصر عرصے میں سب کے سامنے ہو ں گے ۔
سی سی پی او لاہور کیپٹن (ر) محمد امین وینس نے بتایا کہ کہ شہر میں ایس ایچ او کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل کر دیاگیا ہے۔ نئے طریقے کے مطابق ایس ایچ او کی تعیناتی اہلیت، سابقہ شہرت، سابقہ کارکردگی اور متعلقہ ایس پی کی مشاورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے کی جائے گی۔میری ہدایت پر ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدر اشرف نے ایس ایچ او کی تعیناتی کے سلسلہ میں ایس پی ہیڈ کوارٹر، ایس پی سکیورٹی اور متعلقہ ایس پی پر مشتمل 3 رکنی کمیٹی بنادی ہے جو ایس ایچ او تعینات ہونے والے افسر کی سابقہ شہرت اور سابقہ کارکردگی کو جانچنے کے بعد ڈی آئی جی آپریشنز کو حتمی رپورٹ پیش کریںگے۔ جس کی بنیاد پر ایس ایچ او کی تعیناتی کا فیصلہ کیا جائے گا۔ یہ اقدامات اس لئے کئے جا رہے ہیں تاکہ نظام میں شفافیت کو برقرار اور متعلقہ ایس پی کی براہِ راست دلچسپی کو بڑھایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی نااہل اور بری شہرت کے حامل افسر کو ایس ایچ او تعینات نہیں کیا جائیگا اور ہر مہینے ایس ایچ او کی کارکردگی کو مانیٹر کیا جا ئے گا جبکہ ہر مہینے تمام افسران کی کارکردگی کا موازنہ کرکے اچھی کارکردگی دکھانے والے افسر کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے گی۔
سانحہ ماڈ ل ٹائون کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے ۔ اس واقعہ کی ایف آئی آر کا اندراج ہو چکا ہے اور اب تفتیش میں ذمہ داروں کا تعین ہو جائے گا اور میں یہ بات آپ کو پورے یقین اور اعتماد سے کہہ رہا ہوں کہ پولیس اس واقعہ کے تحقیقات میں قانون اور انصاف کے تمام تقاضو ں کو ملحوظ خاطر رکھے گی ۔انہوںنے کہا کہ یہ واقعہ لاہو رپولیس کی تاریخ کاافسوسناک واقعہ ہے۔ اس مقدمہ کی تفتیش قانون کے مطابق تھانہ فیصل ٹاؤن کا انچارج انویسٹی گیشن اعجاز رشید کررہا ہے ۔اگر مدعی کو تفتیش پر کوئی اعتراض ہو تو وہ قانون کے مطابق درخواست دے کر تفتیش تبدیل کرا سکتا ہے جبکہ مقدمہ میں دہشت گردی کی دفعات کے اضافے کے بعد مقدمہ کی تحقیقات کے لئے لیگل ڈیپارٹمنٹ کی رائے کے بعد نئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بھی تشکیل دی جاسکتی ہے ۔اس واقعہ میں جو ذمہ دار قرار پایا اس کے خلاف مقام و مرتبے کا لحاظ کیے بغیر قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔