اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں) امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی قیادت میں سیاسی رہنماؤں کے جرگے نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری سے الگ الگ ملاقات کی۔ اپوزیشن مذاکراتی ٹیم کی قیادت امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کی۔ جرگے میں رحمن ملک، لیاقت بلوچ، حاصل بزنجو، غازی گلاب جمال، میاں اسلم اور سنیٹر کلثوم پروین شامل تھے۔ 10 منٹ تک عمران خان سے بات کرنے کے بعد اپوزیشن مذاکراتی ٹیم نے طاہر القادری سے انکے کنٹینر میں ملاقات کی۔ طاہر القادری اور عمران خان کے ساتھ مذاکرات کے بعد جرگے کے رکن رحمن ملک نے کہا کہ قوم جلد خوشخبری سنے گی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ معاہدے پر اتفاق ہوا تو سیاسی جماعتیں ضامن بننے پر تیار ہیں، ابھی بہت سا کام باقی ہے کیونکہ بعد میں کسی بھی فریق کو بھاگنے کا موقع نہ ملے، عوام خود اسکا فیصلہ کرینگے۔ حکومت نے ہمارے بہت سے مطالبات تسلیم کرلئے ہیں۔ حکومت کو بھی گریبان سے پکڑا ہے، حکومت کو بھی مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں، یہ جرگہ سرکارکی طرف سے نہیں بلکہ عوام کی طرف سے بنایا گیا ہے، دھرنے کے شرکاء ایک مقصد کیلئے یہاں بیٹھے ہیں، اس کا ثبوت یہ ہے کہ آدمی بھوک، پیاس، اپنی نیند کو قربان کسی مقصد کیلئے ہی برداشت کرتا ہے، ہم تماشائی نہیں ہیں۔ اس موقع پرجرگے کے رکن رحمن نے کہا ہے کہ ہمارے جرگے نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی کمیٹیوں سے مذاکرات شروع کردئیے، بات چیت وہیں سے شروع ہوگی جہاں سے ٹوٹی تھی۔ ڈیڈ لاک ہوا تھا وہی سے مذاکرات کو دوبارہ شروع کیا جائیگا۔ ایک مثبت بات یہ ہے کہ طاہر القادری اور عمران خان کی جانب سے دو الگ الگ کمیٹیاں بنا دی گئی ہیں جو مذاکرات کو آگے بڑھائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو بھی مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہم دوستی اور محبت کا پیغام لائے ہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری نے مثبت اشارے دئیے ہیں جہاں سے ڈیڈ لاک ہوا تھا مذاکرات وہیں سے شروع ہونگے، پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے۔ سیزفائر ہونا چاہئے، امید ہے کہ حکومت بھی مثبت رویہ اختیار کریگی۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ اپوزیشن مذاکراتی کمیٹی کا مقصد سیاسی بحران حل کرنا ہے۔ دھرنے کے شرکاء ایک مقصد کیلئے یہاں بیٹھے ہیں۔ ہمارا ایک ہی مقصد ہے تمام مسائل ک و مذاکرات کے ذریعے حل کئے جائیں حکومت نے ہمارے بہت سے مطالبات تسلیم کئے ہیں۔ حکومت کو مجبور کر کے کنٹینر ہٹائے اور راستے کھلوائے حکومت کو گریبان سے پکڑا ہے۔ ہم تماشائی نہیں بنیں گے پاکستان ہم سب کا ہے۔ ہم ڈیڈ لاک ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اور عوامی تحریک نے مذاکرات کیلئے کمیٹیاں بنا دیں حکومت اور مظاہرین معاہدے پر راضی ہوجائیں تو سیاسی جماعتیں ضامن بننے کو تیار ہیں۔ جو بھی معاہدہ طے پائیگا وہ میڈیا کے سامنے لایا جائے گا۔ کوئی بھی ن تیجہ نکلنے تک اسے خود کو کامیاب نہیں کہہ سکتے بہت سارا کام باقی ہے۔ قبل ازیں عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے کنٹینر پر گئے اور خطاب کیا دونوں رہنما آپس میں گلے بھی ملے۔ دونوں رہنماؤں نے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اکٹھے ملکر عوام کی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ طاہر القادری کے کنٹینر کا ساؤنڈ سسٹم خراب ہوا جس پر وہ عمران کے کنٹینر پر گئے۔ علاوہ ازیں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خاں نے کہا ہے کہ حکومت سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں ہم آج آخری بار قومی اسمبلی میں جائینگے اور ایوان کو بتائینگے کہ کون جمہوریت کے ساتھ اور کون جمہوریت کے نام پر اس ملک کو تباہ کر رہا ہے، دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی سے کہا ہے کہ وہ آج اسمبلی میں جائیں اور نکتہ ودلیل کے ساتھ ان کی باتوں کا جواب دیں، میرے تمام ایم این ایز اسمبلی میں آج پہنچیں اور آخری بار جائیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کو جمہوریت کی بڑی تکلیف ہے محمود اچکزئی کو دھاندلی سے بڑا فائدہ ہوا ایک بھائی گورنر دیگر افراد وزیر ہیں۔ جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کی جا رہی ہے۔ فضل الرحمٰن وزارتوں کیلئے سب سے مل جاتے ہیں۔ حکمران سوچتے ہیں کہ تھک کر چلے جائینگے میں آزادی یا موت کا فیصلہ کر چکا ہوں جبکہ عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ میں نے اور عمران خان نے کرپشن کے بت پاش پاش کرنے کیلئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا ہے، انتخابات کی بنیاد دھن دھونس اور دھاندلی تھی۔ عمران خان کے کنٹینر سے پہلی بار مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مختلف مقررین نے کہا کہ ہم جمہوریت اور آئین کے ساتھ کھڑے ہیں تو کیا ہم جمہوریت کے خلاف ہیں ہم بھی آئین اور جمہوریت کے خلاف نہیں ہیں، آئین عوام کو روٹی، کپڑا، مکان اور عزت سے جینے کا حق دیتا ہے، کیا کنٹینر لگاکر کھانا، پانی بند کرنا جمہوریت ہے۔ قبل ازیں تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ہونے والی تقاریر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم (آج) آخری مرتبہ اسمبلی میں جائیں گے اور ایوان کو بتائیں گے کون جمہوریت کے ساتھ ہے اور کون جمہوریت کے نام پر اس ملک کی جمہوریت کو تباہ کر رہا ہے۔ بدھ کو آخری بار تحریک انصاف کے ارکانِ اسمبلی پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔ شاہ محمود قریشی کو ہدایت کی ہے کہ وہ آج (بدھ) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جائیں اور بتائیں کہ کون جمہوریت کے ساتھ ہے۔ شاہ محمود قریشی سے کہا کہ دلیل سے بتائیں کہ کون جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہے اور کون جمہوریت کے نام پر اس ملک کی جمہوریت کو تباہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک کو فلاحی ریاست بنانا، قوم کو ظالموں سے نجات دلانا میرے مشن ہیں، نواز شریف کا استعفیٰ لئے بغیر نہیں جاؤں گا ،کرکٹ کی 250 سالہ تاریخ میں نیوٹرل امپائر میں ہی لے کر آیا ہوں، علاوہ ازیں شام کے وقت دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا ہے کہ آج قومی اسمبلی میں جمہوریت بچانے کیلئے بڑی زور دار تقریریں ہوئیں، ہمیں جمہوریت بچانے کیلئے سبق دئیے گئے ثابت کریں ہم جمہوریت کو کونسا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کو جمہوریت کی بڑی تکلیف ہے۔ محمود اچکزئی کو دھاندلی سے بڑا فائدہ ہوا ایک بھائی گورنر دیگر افراد وزیر ہیں۔ اعتزاز احسن نے زبردست تقریر کی اور بتایا کہ کتنی دھاندلی ہوئی۔ چودھری فیلڈ مارشل کہتے ہیں کہ ہر حلقے میں 60ہزار ووٹوں کی شناخت نہیں ہو سکتے، ووٹ شناخت نہیں ہو سکتے تو کوئی ہار یا جیت کیسے گیا؟ ملک میں جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کی جا رہی ہے، اسمبلی ناجائز اور پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں، تمام پارلیمانی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ دھاندلی ہوئی، دنیا میں کوئی جمہوری ملک ایسے الیکشن کو نہیں مان سکتا مسلم لیگ ن نے انتخابات میں فراڈ کرایا اس لئے انکوائری نہیں کرائی، الیکشن میں سیاہی اور کاغذ ٹھیک نہیں تھا تو حکومت کی ذمہ داری سے ن لیگ نے ایسا کیا، کہا کہ پنجاب میں ان کے ووٹ دگنا ہو گئے ہیں، چار حلقے کھولنے کی بات کی تاکہ آئندہ الیکشن شفاف ہوں، دھاندلی کا سب سے زیادہ فائدہ نوازشریف نے اٹھایا، وہ شفاف تحقیقات کیسے کرے گا؟ میچ ختم ہونے سے پہلے نتیجہ پتا چل جائے تو اسے میچ فکسنگ کہتے ہیں نوازشریف نے 17فیصد نتائج پر تقریر کرتے کہاکہ اعتزاز صاحب چیف جسٹس کیلئے دھرنا ٹھیک تھا تو یہ کیسے غلط ہو گیا آپ کو دھاندلی کے خلاف میرے ساتھ نکلنا چاہئے تھا آپ تحقیقات کا اس لئے نہیں کہتے کیونکہ مک مکا ہوا ہے، دھاندلی کرنے والوں کے احتساب تک حقیقی جمہوریت نہیں آ سکتی، پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتیں آپس میں ملی ہوئی ہیں، 45کارکنوں کو گولیاں لگیں اور پرچہ ہی ہمارے خلاف کاٹا گیا، چودھری نثار سے سوال کرتا ہوں کہ آنسو گیس سے لوگ مر گئے ہمارا قصور کیا تھا؟ جاوید ہاشمی کا میرے پیچھے فوج کے ہاتھ کا الزام افسوسناک ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو جواب دینا اپنی توہین سمجھتا ہوں، فضل الرحمن وزارتوں کیلئے سب یس مل جاتا ہے۔ ان کو جواب دیتے شرم محسوس کرتا ہوں وہ وکٹ کے ہر طرف کھیل سکتے ہیں جاوید ہاشمی سے زیادہ کسی کی عزت نہیں کی ان کے سامنے 13ماہ پہلے کہا تھا کہ دھاندلی کی تحقیقات کروانی ہے اگر 2014ء موسم گرما تک انصاف نہ ملا تو سڑکوں پر ہوں گے۔ ہاشمی صاحب فوج کے ساتھ میرے ملے ہونے کے بیان پر افسوس ہوا۔ اقتدار کی ہوس ہوتی تو وزیراعظم بن چکا ہوتا۔ ذوالفقار بھٹو آٹھ سال آمر کے ساتھ رہے پھر سیاست میں آئے۔ پرویز مشرف نے وزیراعظم بننے کی پیشکش کی، ضیاء الحق کے بیٹے انوار الحق نے 26سال پہلے وزیر بننے کی پیش کش کی میرے خاندان کا کوئی فرد سیاست میں نہیں، مشرف نے کرپشن ختم کرنے کی بات کی تو سپورٹ کیا، 1997ء میں نوازشریف سے اتحاد پر 25نشستوں کی پیشکش ہوئی، میں نے کسی کے اشارے پر چلنا تھا تو ہاشمی صاحب چیف جسٹس افتخار اور جنرل کیانی ریٹائر ہو گئے ہیں۔ 1988 میں ضیاء الحق نے وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی تھی معین قریشی نے مجھے وزیراعظم بننے کی پیشکش کی جو قبول نہیں کی۔ نوازشریف اور پرویز مشرف میں بھی مک مکا ہوا۔ شریف خاندان کے آٹھ لوگوں نے منی لانڈرنگ کی اسحاق ڈار نے بیرون ملک جعلی اکائونٹس میں اربوں روپے ڈالے، نوازشریف سمیت 80فیصد ارکان اسمبلی نے اپنے ٹھیک اثاثے ظاہر نہیں کئے۔ علاوہ ازیں عمران خان کے کنٹینر سے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے طاہر القادری نے کہا ہے کہ آئین حفاظت، روزگار دیتا ہے، پاکستان پر آئین کا ایک آرٹیکل بھی نافذ نہیں کیا گیا، آئین وسائل کی منصفانہ تقسیم کا بھی حکم دیتا ہے، 41سال سے دو جماعتیں مل کر حکومت کر رہی ہیں، ارکان اسمبلی نے اپنے اثاثے کہاں سے کہاں پہنچا لئے، عوام کو آئین کے صرف 40آرٹیکلز میں حقوق دینے کی بات کی گئی جبکہ 240آرٹیکلز میں صرف حکومت بنانے اور کاروبار سلطنت کا ذکر ہے۔ تمہاری دلچسپی کاروبار حکومت چلانے سے ہے، ہماری دلچسپی غریبوں کا کاروبار چلنے سے ہے، دیگر ملکوں میں آدھے سے زیادہ آئین عوام کے بارے میں ہوتا ہے۔ تم کہتے ہو کہ جمہوریت کے ساتھ ہو، کیا ماڈل ٹائون میں 14افراد کو گولیوں سے مار ڈالنا جمہوریت ہے، کیا کنٹینرز لگاکر کھانا پانی بند کرنا جمہوریت ہے، جمہوریت نام ہے شفافیت، امانت، دیانت، احتساب، اداروں کے استحکام کا نام ہے۔ برطانیہ میں وزیر نے 40پنس کا بل زیادہ بھرا، اُسے مستعفی ہونا پڑا، برطانیہ میں وزیر کو ریڈ لائٹ سے گاڑی گزارنے پر اسے وزارت اور پارٹی رکنیت سے استعفیٰ دینا پڑا، اُسے جمہوریت کہتے ہیں۔ ایک سال پہلے عمران خان نے کہا کہ صرف 4حلقوں میں گنتی کروا دیں تم نے ایسا نہیں کیا۔ کیا یہ جمہوریت ہے، ہم نے کہا کہ ماڈل ٹائون انکوائری کیلئے شہبازشریف کو مستعفی کروا دیں آپ کو ایک شخص نہیں ملتا جو وزیراعلیٰ بننے کے قابل ہو۔ شہبازشریف نے کہا تھا کہ جوڈیشل کمشن کہہ دے کہ میرا قصور ہے تو میں مستعفی ہو جائوں گا، جوڈیشل کمشن نے صرف اشارہ نہیں کیا بلکہ انگلی اٹھا دی۔ جوڈیشل کمشن کی رپورٹ میں پنجاب حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تو پھر شہبازشریف اپنے وعدے کے مطابق مستعفی کیوں نہیں ہوئے۔ پی ٹی وی پر حملہ آور ہمارے لوگ نہیں یہ (ن) لیگ کے لوگ ہو سکتے ہیں ہم نے کسی کو نہیں بھیجا، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، وہ آپ کے گلو بٹ ہوں گے۔ افضل خان نے دھاندلی کا پول کھول دیا، فوج ہمارے پیچھے نہیں، یہ سازش ہے، ہماری تو نوازشریف کی کال کے بعد صرف ایک بار ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات ہوئی۔ جاوید ہاشمی تحریک انصاف کے میر جعفر ہیں۔ عمران خان کے جگری یار نے اسمبلی میں کہا کہ انقلاب اور آزادی مارچ والوں کے پاس کلہاڑیاں ہیں جس سے 100سے زائد اہلکار زخمی ہوئے، میں کہتا ہوں اسمبلی کے ارکان اور ہمارے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی بناکر وہ اہلکار دکھا دو جو کلہاڑیوں سے زخمی ہوئے۔ بھوک اور پیاس کے باوجود یہاں انسانوں کا سمندر ہے۔ وزیراعظم غیرملکی دوروں پر اس لئے جاتے ہیں کہ وہاں پیسہ بنتا ہے، وہ روجھان، ڈیرہ غازی خان کیوں نہیں جاتے اس لئے کہ وہاں پیسہ بنتا نہیں لگانا پڑتا ہے، تم اس لوٹ مار کو جمہوریت کا نام دیتے ہو، ارکان اسمبلی نے ہاتھ تھامے ہیں ہم نے بھی ہاتھ تھامے ہیں وہ کرپشن کرنے کیلئے ہاتھ ہیں ہمارے ہاتھ کرپشن ختم کرنے کیلئے ہیں۔ اچکزئی کو اس لئے جمہوریت سوٹ کرتی ہے کیونکہ آپ یہاں اور آپ کا بھائی بلوچستان میں گورنر ہے۔ آپ کے 8بھائی وزیر مشیر ہیں۔ نوازشریف کے 24رشتہ دار وزیر مشیر ہیں۔ تم اشرافیہ کو نظام سمجھتے ہو ہم غریبوں کو نظام سمجھتے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ میں نے انہیں پارٹی میں آنے کی دعوت دی، میں کلمہ طیبہ پڑھ کر رد کرتا ہوں۔ میں کون ہوتا ہوں انہیں وزارت عظمیٰ دینے والا۔ ایک جزوی خوشخبری یہ ہے کہ پیر کی شام کو درست ایف آئی آر کٹ گئی ہے۔ اس ایف آئی آر میں قرآن مجید کی بے حرمتی اور دہشت گردی کی دفعہ لگ گئی اس کے ملزموں میں نوازشریف، شہبازشریف، حمزہ شہباز، رانا ثناء اللہ، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، پرویز رشید، عابد شیر علی اور چودھری نثار شامل ہیں اور دیگر پولیس والے شامل ہیں۔ قبل ازیں ڈاکٹر طاہر القادری خطاب کرنے کنٹینر پر آئے تو ان کا سائونڈ سسٹم خراب تھا۔ انہوں نے کہاکہ تحریک انصاف والوں کے پاس اچھا سائونڈ سسٹم ہے جس پر عمران خان نے انہیں اپنے کنٹینر پر آکر خطاب کرنے کی دعوت دی۔ عمران خان کی دعوت پر طاہر القادری نے تحریک انصاف کے کنٹینر سے خطاب کیا۔ بعدازاں ڈاکٹر طاہر القادری نے کنٹینر میں عمران خان سے ملاقات کی اور موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ علاوہ ازیں پیپلزپارٹی کے رہنما قمر الزمان کائرہ نے گذشتہ روز طاہر القادری سے ملاقات کی۔ قمر الزمان نے کہا کہ موجودہ صورتحال پر بات ہوئی ہے مثبت اشارے ملے ہیں۔ علاوہ ازیں عمران نے کہا کہ مشکل وقت میں انسان اپنے نظریئے پر کھڑا رہتا ہے۔ فیصلہ کر لیا کہ کامیابی کے بغیر واپس نہیں جاؤں گا ہم حکمرانوں کی دھاندلی قبول نہیں کریں گے ہجوم نہیں نظرئیے والے لوگ تبدیلی لیکر آتے ہیں کور کمیٹی سے کہا تھا کہ کامیابی حاصل کروں گا یا موت۔ اسمبلی میں بیٹھے لوگوں کو سمجھ آرہی ہے یا نہیں تبدیلی آچکی ہے۔ پرامن احتجاج ہمارا حق ہے قائداعظم کی جمہوریت لانا چاہتے ہیں۔ طاہر عالم کو لایا گیا ہے ہم تیار ہیں طاہر عالم اگر پرامن مظاہرین پر تشدد ہوا تو تم کو میں نہیں چھوڑوں گا۔ تشدد ہوا تو مقابلہ کریں گے۔ جیل جانے سے نہیں ڈرتا میں پہلے ہی جیل میں ہوں موجودہ پارلیمنٹ جعلی ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہم پاکستان اور جمہوریت کیلئے لڑ رہے ہیں۔ رات گئے سیاسی جرگے کے تحریک انصاف کیساتھ مذاکرات جاری رہے۔ ذرائع کے مطابق سیاسی جرگہ نے دونوں جماعتوں کے قائدین پر زور دیا ہے کہ انکی ’’باعزت واپسی‘‘ کیلئے ضروری ہے کہ حکومت انکے جن مطالبات کو تسلیم کررہی ہے ان پر معاہدہ کرلیں‘ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سے پیشگی استعفے کے مطالبے سے دستبردار ہوجائیں۔ دونوں جماعتوں نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تاہم سیاسی جرگہ کی ضمانت کو قبول کرنے کے ’’اشارے‘‘ دئیے ہیں۔ سیاسی جرگہ نے دھرنے کے شرکاء کیلئے کھانا لانے کی اجازت دینے اور گرفتار کارکنوں کو رہا کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے کیلئے کہا۔ اس موقع پر رحمن ملک اور جماعت اسلامی کے سیکرٹری لیاقت بلوچ نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ بھی خیرسگالی کے طورپر ملک بھر میں گرفتار کئے گئے پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے کارکنوں کو فی الفور رہا کردے۔ آن لائن کے مطابق تحریک انصاف، عوامی تحریک اور اپوزیشن جماعتوں کے مذاکراتی جرگے سے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ جرگہ کے سربراہ سراج الحق نے کہا ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری نے مثبت اشارہ دیا ہے، امید ہے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔رات گئے سیاسی رہنمائوں کے جرگے نے تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی سے ملاقات کی جس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اپوزیشن کے جرگے کے شکرگزار ہیں جس نے مذاکرات میں ڈیڈلاک ختم کرنے کی کوشش کی، آج رحمن ملک کی رہائش پر شام چار بجے مذاکرات ہونگے، اپنا موقف جرگے کے سامنے پیش کر دیا۔ جرگے کے کہنے پر مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ جرگے نے ہمارا موقف سنا۔ سراج الحق نے کہا کہ جہاں سے ڈیڈلاک ہوا وہیں سے مذاکرات شروع ہونگے۔ بحران سے قوم پریشان ہے، حل نکلنے تک مذاکرات جاری رہیں گے۔ فریقین ہمیں مسئلہ حل کرنے کا موقع دیں، انشاء اللہ مسئلے کا پرامن حل نکل آئے گا۔ رحمن ملک نے کہا کہ مذاکرات جاری رکھنے کا مقصد کسی کی کمزوری نہیں، پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکنوں کو رہا کیا جائے، دھرنے کے شرکا پر تشدد کی مذمت کرتے ہیں، مذاکراتی کمیٹی کے ارکان کے خلاف مقدمات درج کرنا افسوسناک ہے۔ سیاسی رہنمائوں کا جرگہ آج عوامی تحریک کی کمیٹی سے بھی ملاقات کریگا۔ علاوہ ازیں رات گئے خطاب کرتے ہوئے عمران نے تحریک انصاف کے عہدیداروں سے کہا کہ وہ اسلام آباد پہنچ جائیں، جس نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنا ہے وہ حاضری یقینی بنائے۔ نواز شریف عوام کے خوف سے گھبرا رہے ہیں، میاں صاحب کو کرسی جاتی نظر آ رہی ہے، کون لیڈر ہے جو پرامن مظاہرین پر تشدد کروائے۔ نواز شریف خوف کے باعث فیصلے کر رہے ہیں، میرے خلاف بغاوت اور دہشت گردی کا مقدمہ درج کرایا گیا۔ پاکستانی مجھے 40 سال سے جانتے ہیں، کون مانے گا میں دہشت گرد ہوں، ہم نواز شریف کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرائیں گے۔