قارئین کرام ، آپ بخوبی جانتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں امن و امان کی فضا کے قیام کے پیش نظر وزیراعظم پاکستان نے نئی دہلی جا کر بھارتی انتخابات میں کامیاب ہونےوالے انتہا پسند ہندو رہنما نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں بِلا کسی شرط کے شرکت کی تھی اور ایک خط کے ذریعے نئے بھارتی وزیراعظم کو دوطرفہ بات چیت کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان مسائل کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنےکی دعوت دی تھی لیکن سنگھ پریوار کے فاشسٹ وزیراعظم نریندر مودی نے اِسے پاکستان کی کمزوری سمجھتے ہوئے نہ صرف کشمیر کنٹرول لائن کو ہتھیاروں سے گرمانا شروع کیا ہے بلکہ سیالکوٹ ورکنگ باﺅنڈری پر سکولوں اور شہری آبادیوں کو بلا اشتعال گولہ باری کرکے بے گناہ شہریوں اور بچوں کو قتل و غارتگری سے بھی گریز نہیں کیا ۔
گو کہ بھارت گزشتہ ہفتے نئی دہلی میں دونوں ملکوں کے درمیان تمام مسائل پر بات چیت کےلئے مشیروں کے درمیان ملاقات پر رضامند ہوا تھا لیکن بات چیت سے قبل ہی بھارتی حکام اور میڈیا کی اشتعال انگیزی اور پاکستانی مشیر سے ملاقات کےلئے آنیوالے کشمیری نمائندوں کی گرفتاری و نظر بندی کے حوالے سے نئی دہلی میں ہونےوالے ڈائیلاگ کو شروع ہونے سے قبل ہی سبوتاژ کردیا گیا۔ سرحدوں پر گولہ باری کے اِس بہیمانہ غیر انسانی فعل کا بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور کنٹرول لائن پر اقوام متحدہ کے آبزرور گروپ نے بھی نوٹس لیا ہے لیکن بھارت بدستور اشتعال انگیزی پر قائم ہے۔ دراصل بھارت فلسطین میں صہیونی ظالمانہ حربوں کی تقلید کرتے ہوئے کشمیر میں جارحانہ عزائم کی تکمیل کےلئے پاکستان پر اپنی مرضی کا حل مسلط کرنا چاہتا ہے۔
بین الاقوامی طور پریہ ایک مستند حقیقت ہے کہ بھارتی سیاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا ظہور انتہا پسند دہشتگرد ہندو تنظیم، راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سیاسی ونگ کے طور پر ہوا ہے ۔آر ایس ایس کا قیام نازی ازم کے فلسفے کی بنیاد پر 1925 میں عمل میں آیا تھا جس کا بنیادی مقصد جنوبی ایشیا میں کابل تک ہندو ریاست کا قیام اور مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو توا کے ظلم و تشدد کے فلسفے کے تحت ہندوازم میں جذب کرنا مقصود تھا۔ یورپ میں نازی ازم کی تباہی اور 1948 میں مشرق وسطیٰ میں عسکریت پسند صہیونی ریاست کے قیام کے بعد آر ایس ایس اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں، بجرنگ دل ، وشوا ہندو پریشد ، شیو سینا ، ہندو توا سولجرز، زعفرانی ٹائیگرز اور دیگر انتہا پسند ہندو گروپ شامل ہیں جنہیں عرف عام میں سنگھ پریوار کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے ،نے صہیونیت سے تعلق قائم کرنے کو ترجیح دی ۔
گزشتہ چند عشروں میں سنگھ پریوار کی تما م عسکریت پسند تنظیمیں ہندو یکجہتی کے نام پر آر ایس ایس کی قیادت میں نہ صرف اکٹھی ہو چکی ہیں بلکہ دنیا بھر کی صہیونی تنظیموں کےساتھ قریبی روابط مضبوط بنانے میں مصروف ہیں ۔ سنگھ پریوار کے ممتاز دانشور سریندر اٹاری نے 2003 میں اپنے اہم مقالے میں ہندو سماج کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا : " ہمارے دو دشمن ہیں اسلام اور عیسائیت ... یہودیت ایک اچھا مذہب نہیں ہے لیکن ہمیں یہودیوں اور یہودی ریاست اسرائیل کےساتھ ایک شاطرانہ اور اِسٹریٹیجک اتحاد قائم کرنے کےلئے اُنکے باوصف مذہبی اصولوں کو ماننے کی ضرورت نہیں ہے، جس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہی ہے کہ یہودیوں کو ہماری اور ہمیں اُنکی ضرورت ہے کیونکہ دونوں قوموں کے درمیان واضح مشترکہ مفاد موجود ہے تاکہ یہودی اپنی صلاحیتوں اور ہندو اپنی تعداد کے باعث ایک فطری اتحاد قائم کرکے مستقبل میں ایک نیا ورلڈ آرڈر قائم کر سکیں "۔
حقیقتاً آر ایس ایس کے اہم پالیسی معاملات کی تشکیل جس میں ہندو یہودی اتحاد کی فکر بھی شامل ہے ڈاکٹر موہن بھگوت کی رائے بطور سیکریٹری آر ایس ایس بخوبی شامل رہی ہے۔ چنانچہ جب وہ 2009 میں سدرشن جی کے سبکدوش ہونے کے بعد منصب صدارت پر فائز ہوئے ہیں تو اُنہوں نے آر ایس ایس کے مضبوط ترین سیاسی ونگ بی جے پی کو بھی اپنے وفادار ساتھیوں کی مدد سے آر ایس ایس کی پالیسیوں کے تابع کر لیا ہے۔ نریندر سنگھ مودی نوجوانی کے زمانے سے ہی آر ایس ایس کے فاشسٹ ایجنڈے پر فدائی کے طور پر کام کرتے رہے ہیں جن کے ہاتھ وزیراعلیٰ گجرات کی حیثیت سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ، یہی وجہ تھی کہ وزیراعظم بھارت بننے سے قبل امریکہ نے اُنہیں وزٹ ویزہ دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔چنانچہ ڈاکٹر موہن بھگوت کی فاشسٹ فکر کے سبب ہی نریندر مودی بھارتی وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوگئے ، انتہا پسند سشما سوراج وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئیں اور راج ناتھ سنگھ وزیر داخلہ کے اہم عہدے پر فائز ہوگئے جبکہ یہ تینوں رہنما صہیونیت اور ہندوازم کے درمیان قریبی تعلقات کے زبردست حامی ہیں ۔سشما سوراج 2006 سے2009 تک انڈو اسرائیل پارلیمانی دوست گروپ کی چیئر پرسن بھی رہی ہیں اور وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد نریندر مودی کو اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے اہم تہنیتی کال موصول ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔
درج بالا تناظر میںالیکشن 2014 سے قبل آر ایس ایس چیف ڈاکٹر موہن بھگوت نے وجے دشمی کانفرنس 2013 میں سنگھ پریوار کی جماعتوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ وضاحت کر دی تھی کہ بھارت میں الیکشن 2014 کے ذریعے سیاسی اور سماجی میدانوں میں تبدیلی لائی جائیگی جس کےلئے اینٹی مسلم اور اینٹی پاکستان اسٹریٹیجی کا تعین کیا گیا ہے اور اِسی منفی اسٹرٹیجی کے تحت لوک سبھا کے عام انتخابات 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سنیئر رہنماﺅں اٹل بہاری واجپائی، ایل کے ایڈوانی اور جسونت سنگھ کو پالیسی امور سے علیحدہ کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت ڈاکٹر موہن بھگوت کے انتہائی وفادار ساتھی راج ناتھ سنگھ کے حوالے کر دی گئی ہے اور 2014 کی انتخابی مہم کو ہندو بنیاد پرستی کے فلسفے ہندو توا کے حوالے سے اینٹی مسلم و اینٹی پاکستان تصور پر استوار کرنے کےلئے نریندر سنگھ مودی کو آگے لایا گیا ہے۔اِس سے قبل نریندر سنگھ مودی نے اِسی ہندو بنیاد پرست فلسفے کو اپناتے ہوئے انتہا پسند ہندوﺅں کی حمایت سے گجرات احمد آباد میں کامیابی حاصل کی تھی۔ مارچ 2003 میں نیوزویک انٹرنیشنل کی نمائندہ کارلا پاور نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ وزیراعلیٰ نریندر مودی ہٹلر کی طرح کی شخصیت ہے جسے عوامی جلسوں میں شیطان کے روپ پیش کیا جاتا ہے اور جو عوامی جلسوں میں ہندو انتہا پسندی اور اینٹی مسلم و اینٹی پاکستان جذبات کو ہوا دیکرانتخابات میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔
در حقیقت ، 2009 میں ڈاکٹر موہن بھگوت کے آر ایس ایس چیف بننے کے بعد نہ صرف آر ایس ایس کے تنظیمی امور میں انقلابی تبدیلیاں لائی گئیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پالیسیوں کو آر ایس ایس کے کنٹرول میں لانے کےلئے بی جے پی کے سینئر رہنماﺅں کو سائیڈ لائین کرتے ہوئے راج ناتھ سنگھ کو پارٹی کی صدارت کے منصب پر فائز کیا گیا جنہیں اب نئی کابینہ میں وزارت داخلہ کا چارج دیا گیا ہے اور یہی وہ ٹیم ہے جو بھارت اسرائیل تعلقات کو خطے میں مسلم اور عیسائی دشمنی میں آگے لے گئی ہے ۔
اندریں حالات ہندو صہیونی اتحاد کے پیش نظر ہمارے اہم سیاسی و عسکری اداروں کو خطے میں ہونے والی تبدیلیوں سے نہ صرف باخبر اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے بلکہ پاکستان میں مختلف قومیتوں کے اتحاد کو پاکستانیت میں ڈھالنے کےلئے بھی قرار واقعی کوششیں کرنی چاہئیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن حکیم کی سورة المائدہ آیت 80 میں فرماتے ہیں " اور تم پاﺅ گے سب لوگوں سے زیادہ مسلمانوں کا دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو اور پاﺅ گے مسلمانوں سے محبت میں سب سے نزدیک اُن لوگوں کو جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اِس واسطے کہ نصاریٰ میں عالم ہیں اور درویش ہیںاور یہ کہ وہ تکبر نہیں کرتے " ۔