وہ جو کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ ظلم میدانِ جنگ کے بعد عدالتوں میں ہوتا ہے کتنی سچی بات ہے کہ عمران خان کے مطالبے پر چار میں سے تین حلقوں کے نتائج سامنے آچکے ہیں، تینوں حلقوں میں الیکشن ٹربیونلز کا ایک جیسا ہی فیصلہ ہے کہ الیکشن دوبارہ کروائے جائیں چوتھا حلقہ سیالکوٹ کے خواجہ آصف کا ہے جو عدالت کے سٹے آرڈر کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تینوں حلقوں کے ٹربیونلز کے پاس تمام تر دبائو کے باوجود کوئی اور راستہ کیوں نہیں تھا اصولاً تو بوگس اور جعلی ووٹوں کے منسوخ ہونے کے بعد جو فریق بھی جیتتا اسے قومی اسمبلی کا ممبر بنا دیا جاتا اور دھاندلی ، بے ضابطگی پر انتظامیہ کے ذمہ دار RO اور دیگر افسروں کو عبرت کا نمونہ بنا دیا جاتا۔ یہ کوئی انصاف نہیں ہے کہ ظالم اور مظلوم دونوں کو ایک ہی سزا دی جائے۔ یہ تو انصاف کا قتل ہے۔ اصل سزا تو پاکستانی عوام کو دی گئی ہے کہ اربوں روپے کا یہ مزید خرچ سرکاری خزانے پر ڈال دیا گیا ہے۔ چار مہینے کی مقررہ مدت کے باوجود اڑھائی سال کا عرصہ فیصلہ کرنے میں کیوں لگایا؟ اب جو باقی اڑھائی سال ہیں اس میں سے تقریباً تین مہینے الیکشن وغیرہ کے منعقد ہونے میں گزر جائینگے۔ الیکشن ٹربیونلز کے جج صاحبان آٹھ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ کے علاوہ کار، گھر، ڈرائیور اور دوسری مدو ںمیں تقریباً اتنی ہی رقم قومی خزانے سے لے رہے ہیں۔ ملک کے اقتصادی حالات انتہائی خراب ہیں، قوم پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ تعلیم، صحت، بے روزگاری اور امن و امان کے مسائل انتہائی سنگین ہیں، جمہوریت کے نام پر ہر سال اربوں روپیہ بے دردی سے اُڑا دیا جاتا ہے۔ اڑھائی سال پہلے جب عمران خان نے چار حلقوں کی بات کی تھی فوری طور پر فیصلہ کر دیا جاتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔ سپریم کورٹ کے تین سینئر جج صاحبان کی سربراہی میں ایک جوڈیشل کمیشن قائم کیا گیا۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے بحران کو مزید گہرا کر دیا توقع تو یہ تھی کہ جوڈیشل کمیشن معاملے کی تہہ تک پہنچ کر مکمل جانچ پڑتال کے بعد کوئی رپورٹ مرتب کریگا۔ لیکن انکی رپورٹ سے ظاہر ہوا کہ وہ انکوائری نہیں مقدمے کی سماعت کر رہے تھے جو لوگ حکومت میں بیٹھے ہیں اور مختلف عہدوں پر فائز ہیں ان کی تو یہ خواہش سمجھ میں آتی ہے کہ وہ پانچ سال عہدوں سے چمٹے رہیں اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں لیکن اعلیٰ عدلیہ جو توازن کو قائم رکھنے کیلئے عدل و انصاف مُہیا کرنے کی ذمہ دار ہے وہ اپنی ذمہ داری پوری نہ کرسکی، ماضی کا ریکارڈ ہمارے سامنے ہے۔ مولوی تمیز الدین کیس ہو یا بھٹو صاحب کی پھانسی، اعلیٰ ترین عدلیہ نے انصاف نہیں کیا ۔ یہ ایک افسوس ناک بات ہے جس کے نتیجہ میں ملک افراتفری کا شکار نظر آتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے جو طاقتور ہے اسے کھلی چھٹی ہے جو جی چاہے کرے۔ الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں کے نتیجے میں ملک میں چند مہینے تک مزید ہاہا کار مچی رہے گی جبکہ ملک انتہائی خطرناک صورتحال سے دو چار ہے۔ بھارت بلاناغہ ورکنگ بائونڈری اور لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کر رہا ہے، نہتے پاکستانی شہید ہو رہے ہیں۔ ملک کے اندر دہشت گرد اور بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘کے آلہ کار تخریب کاریوں میں مصروف ہیں۔ اگرچہ فوج، رینجرز اور پولیس کی کوششوں نے انکی سرگرمیوں کو محدود کر دیا ہے۔ قومی ایکشن پلان جس پر تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا تھا وہ سیاسی کشمکش کی وجہ سے سُست روی کا شکار ہے۔ 70 ہزار سے زیادہ پاکستانی شہید ہوچکے ہیں۔ افغانستان سے بھی کوئی اچھی خبریں نہیں آ رہیں وہ ہمیشہ کی طرح بھارت کا آلہ کار بنتا نظر آ رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں پہلی بار مسجد کیلئے مخصوص جگہ پر نریندر مودی سے مندر کی بنیاد رکھوائی گئی ہے۔ ہمارے عرب بھائی بھارت کے ساتھ فوجی اور فضائی مشقوں میں مصروف ہیں۔ نریندر مودی ایران کی خلیج کی طرف واقع ایک چھوٹی چاہِ آبیار بندرگاہ کو ڈویلپڈ کرنے کیلئے اربوں روپیہ صرف کر رہا ہے۔ نریندر مودی کی کوشش ہے کہ پاکستان کو تنہا کر دیا جائے اور کسی بھی طرح چین کے تعاون سے بننے والی اقتصادی راہ داری منصوبے کو مکمل نہ ہونے دیا جائے۔ بلوچستان میں بھی عرصہ دراز سے وہ مسلح گروپوں کی مالی اور فوجی امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔ جنرل راحیل شریف کے متحرک اور فعال کردار کی وجہ سے آج ان تمام علاقوں میں جہاں دشمن نے اپنا نیٹ ورک قائم کیا ہوا تھا آپریشن ’’ضرب عضب‘‘ کے ذریعے تہس نہس کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ پاکستانی قوم فوج کے ساتھ ہے لیکن پاکستانی سیاست دان اپنے ذاتی، چھوٹے چھوٹے مفادات کیلئے دشمن کے ہم نوا اور آلہ کار نظر آتے ہیں، کوئی دشمن کو بے غیرت اور بے حیا کہہ رہا ہے کہ اس نے اب تک حملہ کیوں نہیں کیا، کوئی اینٹ سے اینٹ بچاتا ہوا ملک سے باہر بھاگ گیا، کوئی کُھلی جنگ کی بات کر رہا ہے، اگر دہشتگردی میں ملوث سیاست دانوں کو پکڑا نہیں جائے گا ان کا احتساب نہیں ہوگا تو پھر دہشت گردی کیسے ختم ہوگی؟ منہ سے یہ کہنا کہ ہم دہشتگردی کے مخالف ہیں اور ہم نے قومی ایکشن پلان پر دستخط کئے ہوئے ہیں لیکن عملی طور پر جب دہشتگردی میں ملوث بڑے ایکٹر پکڑ میں آتے ہیں تو پھر چیخ و پکار شروع ہو جاتی ہے، کبھی لسانی، علاقائی اور کبھی مذہبی سوال کھڑے کئے جاتے ہیں۔ اس سنگین صورت حال میں فوج چومکھی لڑائی لڑ رہی ہے جو لوگ گلی محلوں اور ملک میں خون خرابے کا خواب دیکھ رہے ہیں وہ یہ بات نہ بھولیں کہ اگر عوام اس راستے پر چل پڑے تو پھر سب سے پہلے اس مفاد پرست طبقے کا صفایا کرینگے، کوئی محل، کوئی جاگیر، کوئی لوٹ مار کے مال سے بنائی ہوئی عمارت انکے غضب سے بچ نہیں سکے گی۔ ہماری درخواست ہے کہ جمہوریت کے نام پر ڈرامے بازی بند کی جائے۔ الیکشن کمیشن صرف ایک آدمی پر مشتمل ہونا چاہیے، چاروں صوبوں سے ایک ایک معاون لے کر الیکشن کمیشن کو بھی صفر کر دیا گیا ہے۔ دو سال یا سوا دو سال کیلئے الیکشن کروانے سے بہتر ہے کہ پورے ملک میں مڈٹرم الیکشن کروا دیئے جائیں اس کیلئے ضروری ہے کہ قواعد و ضوابط اتنے سخت ہوں کہ کوئی آدمی دھاندلی یا بے ضابطگی کا تصور بھی نہ کرسکے۔