ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت ایک پریشر گروپ ایم کیو ایم اپنی سیاسی تاریخ کے سب سے بڑے جوار بھاٹے سے گزر رہا ہے۔ پیپلز پارٹی گزشتہ سیاسی دور میں جو بوتی رہی‘ وہ کاٹنا شروع ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ ن اپنی حماقتوں اور بے وقوفیوں کی لپیٹ میں ہے۔ تحریک انصاف اپنے مقدر کے سکندر کا انتظار کرتے کرتے کسی حد تک اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے سرخرو ہو کر قدرے آگے نکل گئی ہے اور وہی سیاسی چالیں چلنے کیلئے پرتول رہی ہے‘ جسکے نتائج پہلے بھی تاسف سے زیادہ کچھ نہیں رہے۔ ایم کیو ایم ایک سیاسی پریشر گروپ بن کر زندہ رہی‘ کبھی سیاسی جماعت نہ بن سکی‘ اسی لئے اسکی سیاسی حکمت عملیوں میں غیر سیاسی اور غیر منطقی رویے شروع دن سے موجود ہیں۔ اس صورتحال میں اگر بات پیپلز پارٹی ہی کی کریں تو جو سیاسی کلچر اس نے آصف زرداری کی سرکردگی میں اختراع کیا‘ اسی کے کھلائے ہوئے گل آج اسکے مدمقابل ہیں۔ یوسف رضا گیلانی نے دیدہ دلیری اور خودسری کی انتہا کر دی تھی۔ میاں خرم رسول کو میڈیا ایڈوائزر مقرر کرنے سے لے کر ترکی کی خاتون اول کے قیمتی ہار کی کہانی تک کی مبینہ کرپشن کہانی یار لوگوں کی گھڑی ہوئی نہیں‘ یہ سب موصوف کا اپنا کیا دھرا ہے۔ بیش بہا ہار کو ڈکار لئے بغیر ہضم کر جانا‘ پھر گرفت سے بچنے کیلئے اس کو اگل دینا اور پھر یہ کہنا کہ میں اس ہار کو تسبیح سمجھا۔ آخر یہ سب کیا ہے؟ پھر انکے بعد راجہ پرویز اشرف کا وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھ کر ’’آ بیل مجھے مار‘‘ والے کام کرنا اور وہ تمام ’’امور نمٹا‘‘ دینا جو عام طورپر وزارت عظمیٰ کے منصب کے شایان شان نہیں ہوتے۔ یہ سب کام اسی سیاسی کلچر کا حصہ ہیں جو آصف علی زرداری کی منشاء سے انجام پائے۔ یار لوگوں کیمطابق اس طرح لوٹ مار کا یہ سارا مبینہ ناٹک ایسے ماحول کی اختراع کرتا رہا‘ جہاں ہر حصے دار کو اس کا حصہ بخوبی ادا ہوتا رہا۔ پیپلز پارٹی کے مذکورہ وضع کردہ سیاسی کلچر سے دیگر کئی جماعتوں کے افراد نے بھی خوب مزے اڑائے‘ جن میں چھوٹے سیاسی پریشر گروپس کے لوگ بھی شامل تھے۔ مزید برآں ڈاکٹر عاصم ایسے لوگوں نے بھی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے اور شنید ہے کہ اپنے ’’محسنوں‘‘ کے ہاتھ بھی دھلوائے۔ اس وقت مبینہ کرپشن کی کہانی کھلتے کھلتے وعدہ معاف گواہوں تک پہنچ گئی ہے اور آصف علی زرداری نے اپنی سیاسی حکمت عملی کی بعض ترجیحات متعین کرتے ہوئے دیارغیر کو اپنا مسکن بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ بلاول بھٹو کو نئی حکمت عملی کے تحت بحیثیت چیئرمین پارٹی امور چلانے کیلئے پاکستان بھیجا گیا ہے‘ جو انتہائی آہستگی اور قدرے معصومیت کیساتھ پارٹی امور نمٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پارٹی میں سکہ تو اب بھی آصف زرداری کا ہی چلتا ہے‘ جنہوں نے ایک تازہ ترین بیان میں پیپلز پارٹی کیخلاف بعض وفاقی اداروں کی کارروائی کی ذمہ داری مسلم لیگ ن پر ڈالتے ہوئے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ نواز شریف 90 کی دہائی والے اقدامات کر رہے ہیں۔ اس مرتبہ آصف زرداری نے سارا ملبہ مسلم لیگ ن پر ڈالتے ہوئے فوج کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی کیا ہے‘ جبکہ اس سے پیشتر انکے متنازعہ بیان میں فوج کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔ زرداری کے تازہ بیان پر مسلم لیگ ن نے طیش میں آنے کے بجائے وضاحتوں کے ڈھیر لگا دئیے ہیں۔ اگرچہ آصف علی زرداری کا بیان ایک طرح سے ’’اعلان جنگ‘‘ بھی ہے لیکن اس کے جواب میں مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی خاطر جمع رکھے آصف زرداری کیخلاف کارروائی نہیں کی جا رہی۔ بظاہر مسلم لیگ ن کے ساتھ پیپلز پارٹی کی سرد جنگ ہے اور متحارب رویے زبانی کلامی ہی سامنے آ رہے ہیں‘ تاہم یہ سرد جنگ اگر عملی طورپر سیاسی جنگ و جدل میں تبدیل ہوئی تو تحریک انصاف اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کیلئے بالکل تیار بیٹھی ہے‘ جس کے سربراہ عمران خان نے آصف زرداری کو ہلاشیری بھی دے رکھی ہے کہ تمہارا غصہ مسلم لیگ ن پر بالکل درست اور جائز ہے۔ اہل درد پاکستانیوں کو بحرطور انکے اس بیان پر ازحد افسوس ہوا ہے‘ جس میں ان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مابین ماضی میں ہونیوالے میثاق جمہوریت سے جمہوریت کو ازحد نقصان پہنچا ہے۔ ان حلقوں کیمطابق یہ ٹھیک ہے کہ مذکورہ معاہدے میں ان ہر دو سیاسی جماعتوں کے علاوہ دیگر سیاسی پارٹیوں اور دھڑوں کو بھی شامل کیا جانا چاہئے‘ لیکن میثاق جمہوریت کی کھلی مخالفت سے عمران خان کے غیر جمہوری ذہن کی عکاسی ہوتی ہے جو ملک میں جمہوریت کے فروغ کیلئے سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پی ٹی آئی کے ذہن کا پس منظر سوائے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مخالفت کے اور کچھ بھی نہیں۔ مسلم لیگ ن کے سیاسی مزاج پر میاں نواز شریف کی چھاپ اس طرح سے نہیں جس طرح پیپلز پارٹی کے دل و دماغ کے ہر خلیے پر آصف زرداری کی چھاپ ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے چہرے کے تمام خدو خال پر عمران خان کے نقوش نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان تینوں سیاسی جماعتوں کے باطنی پیرائے کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کرنے سے یہ بات پوری طرح عیاں و بیاں ہے کہ ہمارے ہاں کے پولیٹیکل کلچر میں لیڈر شپ کے بنائے ہوئے سیاسی زائچوں کی گنجائش کم اور پارٹی کے سربراہان کے ذہنی و فکری رویوں کی چھاپ زیادہ گہری ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو پی ٹی آئی کی تمام سیاست کا انحصار عمران خان پر ہے اور پیپلز پارٹی کے تمام سیاسی نشیب و فراز آصف زرداری کے گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ اب ان حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو ایم کیو ایم کی تمام تر سیاست الطاف حسین کے بولے ہوئے گرجدار جملوں کے گرد گھومتی اور غوطے کھاتی نظر آتی ہے۔ یہی وہ کسوٹی ہے جس پر ہم تینوں سیاسی پارٹیوں مسلم لیگ ن‘ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی سیاست کے متحارب رویے بخوبی سمجھ سکتے ہیں‘ نیز متحارب پریشر گروپ ایم کیو ایم کے سیاسی تیور کے مشتعل اور سنگ باز رویوں کی بھی سمجھ آنے لگتی ہے۔