جمہوریت کو شلوار قمیض کا چھ گز کپڑا یا ڈیڑھ گز لٹھا

Sep 03, 2015

سید سردار احمد پیرزادہ

جمہوریت جن ملکوں میں پیدا ہوئی انہوں نے اپنی اس اولاد کو اصولوں کے کچھ کپڑے بھی پہنائے۔ کچھ ملکوں نے دوسروں کی اِس اولاد جمہوریت کو گود لیا اور اس کی ولدیت کے خانے میں اپنا نام لکھ کر باپ بن بیٹھے مگر ان ملکوں میں یہ اصولوں والے کپڑوں کے بغیر ننگی ہی رہی۔ ایسے ملکوں کے سیاست دان جمہوریت کی تصویر اپنی مرضی سے اپنے مفاد کے مطابق بنانے لگے جس کا فائدہ عوام کو کم اور جمہوریت کی دکان لگانے والوں کو زیادہ ہوا۔ اصولوں کے کپڑے پہنے بغیر والی جمہوریت میں اہم اصول کرپشن، مفاد پرستی، جَگے بازی اور الزام تراشی وغیرہ ہوتے ہیں۔ اپنے آپکو نیک ثابت کرنے کیلئے بڑے بڑے جلسے کئے جاتے ہیں اور جلوس نکالے جاتے ہیں۔ اِن جلسے اور جلوسوں کے سہارے حکومتِ وقت کا جینا حرام کیا جاتا ہے اور معاشرتی نظام کو ڈسٹرب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ معاشرے میں پیدا کی جانیوالی بے چینی سے حکومت مزید لڑکھڑائے۔ جلسے جلوس جمہوریت کی نعمت ہیں لیکن ننگی جمہوریت والے معاشروں میں یہ زحمت بن جاتے ہیں۔ کپڑوں کے بغیر والی جمہوریت میں کرپشن اور مفاد پرستی پسندیدہ مشغلے ہوتے ہیں جنہیں سب باری باری کھیلتے ہیں۔ اس طرح کے رول ماڈل ملک حقیقی ترقی سے دور رہتے ہیں۔ ننگی جمہوریت کی راجدھانی جن ملکوں میں قائم ہے اُن میں پاکستان کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ اگر کبھی یہاں کی جمہوریت میں میچورٹی نظر آئے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں بھی جمہوریت نے اصولوں کے کپڑے پہن لئے ہیں بلکہ اس میچورٹی کی مثال کو سمجھنے کیلئے دیہاتی بازار کی نُکرمیں اس ننگ دھڑنگ ملنگ کو دیکھا جاسکتا ہے جو گھٹنوں کے گرد اپنے بازو لپیٹ کر اُن پر اپنا سر ٹکا دیتا ہے اور اپنے اوپر پھٹی پرانی بوری ڈال لیتا ہے۔ کیا اُسے کپڑے پہنا ہوا شخص کہا جاسکتا ہے؟ ہمارے ہاں جمہوریت کا جو درخت نظر آتا ہے اُسکی جڑوں نے نشوونما کیلئے شروع سے ہی گندے جوہڑوں کا سہارا لیا۔ یعنی تقریباً سب نمایاں سیاسی جماعتیں اور انکے رہنما کبھی نہ کبھی مارشل لائوں سے رابطے میں رہے ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طریقے سے کرپشن، دھاندلی، سازشوں اور جَگے پن میں بھی شامل رہے ہیں۔ اسی لئے مخالفین ایک دوسرے کے ماضی کے چہرے وقفے وقفے سے ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ آصف علی زرداری نے اِن دنوں اپنے سیاسی توپ خانے کا رخ ن لیگ کے قلعے کی طرف موڑ دیا ہے۔ اُنکے کہنے کیمطابق ن لیگ انتقامی سیاست پر اتر آئی ہے جسکے خوفناک نتائج ہونگے۔ آصف علی زرداری پاکستان کے سیاسی کلچر کے شہنشاہ ہیں۔ وہ اندھیری رات میں جب نکلتے ہیں تو رات کے باسی چپ چاپ انہیں اپنا گرو مان لیتے ہیں۔ ’’شہنشاہِ سیاست‘‘ کو کیا یہ بات معلوم نہیں کہ اُنکی طرف بڑھنے والی لکیریں کون کھینچ رہا ہے؟ مگر پھر بھی انہوں نے ن لیگ کو ہی مخاطب کیا ہے۔ سیاست کی یہی باریک چال انہیں شہنشاہِ سیاست کے تخت پر بٹھاتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ انکے دبائو کے بعد ن لیگ پیپلز پارٹی کے اردگرد دفاعی لائن بنانے کی ضرور کوشش کریگی۔ بیشک یہ دفاعی پردہ مکڑی کے جالے جتنا پتلا ہی کیوں نہ ہو اس سے آصف علی زرداری کو دو فائدوں میں سے ایک کے ملنے کا امکان ہے۔ پہلا یہ کہ ہو سکتا ہے اُن کیخلاف معاملات کچھ ڈھیلے پڑ جائیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ن لیگ اور کچھ اداروں کے تعلقات ڈھیلے پڑ سکتے ہیں۔ اسے دیسی زبان میں کہا جاتا ہے کہ ’’ہم نہیں تو تم بھی نہیں‘‘۔ یہ بات تو درست ہے کہ پیپلز پارٹی ن لیگ سے پیچھے ہٹ جائے تو وہی ہوگا جو اُس طالب علم کے ساتھ ہوا یعنی پڑھاکو طالب علم نے کلاس میں کھڑے ہوکر ٹیچر کو سبق سنایا اور جونہی وہ بیٹھنے لگا اُسکے پیچھے سے شرارتی طالب علم نے کرسی کھینچ لی۔ ایسی صورتحال پی ٹی آئی کیلئے بھی زیادہ خوشی کا باعث نہیں ہو سکتی کیونکہ اگر پیپلز پارٹی، ن لیگ، ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی ف اور بلوچستان کی جماعتیں وغیرہ ایک طرف نکال دی جائیں تو پاکستان کے موجودہ ووٹ بینک کا 85 فیصد سے زائد اکائونٹ خالی ہو جائیگا۔ یہ بات درست ہے کہ ماضی میں بونے سیاست دانوں کو جمع کرکے انکے اردگرد کمر پر خاکی بیلٹ باندھ دی گئی جسکی طاقت سے انہوں نے عوام پر کچھ دیر حکمرانی کی۔ ’’ہینگ ووٹ بینک‘‘ کی قیادت کیلئے خاکی بیلٹ کے ساتھ ساتھ دوسروں کو ساتھ لیکر چلنے والے خاص مزاج کا ہونا بھی ضروری ہے۔ عمران خان اپنی پارٹی والوں کو ساتھ لیکر نہیں چل سکتے، دوسری جماعتوں کو ساتھ لیکر کیسے چلیں گے؟ اُن کے مزاج میں جو ڈکٹیٹر پن موجود ہے وہ حکومت بانٹنے والی کسی بااختیار شخصیت کو راس نہیں آسکتا۔ ’’مٹی پائو‘‘ چوہدری شجاعت حسین کا اقوال زریں ہے لیکن اس پر سب سے زیادہ عمل نواز شریف کر رہے ہیں۔ اگر وہ اپنی حکومت بچانے کیلئے پی ٹی آئی کے استعفے نامنظور کر سکتے ہیں اور ایم کیو ایم کو منا سکتے ہیں تو پیپلز پارٹی کو کیسے ناراض کر سکتے ہیں؟ کچھ لوگوں کے خیال میں انہوں نے تو مفاہمت کی سیاست کی یاری نبھانے کیلئے یار کی محبت کو بھی عزت دی اور منی لانڈرنگ کیس میں ایان علی کو راستہ دے دیا۔ ان سب معاملات سے آصف علی زرداری بہت واقف ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ کراچی میں دہشتگردوں اور کرپشن کیخلاف آپریشن کون کنٹرول کررہا ہے۔ اسی لئے ایک سوچ یہ بھی آتی ہے کہ شہنشاہِ سیاست نے ن لیگ کیلئے جو آگ اگلنی شروع کی ہے وہ دراصل فیس سیونگ کی کارروائی نہ ہو۔ اس سے ظاہر ہوگا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے دفاع کیلئے بہت کچھ کیا۔ ہماری سیاست میں یہ چال عام ہے کہ اگر اپنے کسی پرانے کارندے کی وجہ سے قیادت خطرے میں آئے تو کارندے کو خطرے کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ اس طرح قیادت اپنے آپ کو بچانے کیلئے ایک آپشن استعمال کر لیتی ہے یعنی پرانے بوجھ سے آزاد ہو کر نئی پرواز کرو۔ کرپشن کیخلاف وفاقی اداروں کے آپریشن کے بارے میں جان کر یہ خیال آتا ہے کہ جمہوریت کے بدترین حالات کو دیکھ کر وفاقی حکومت کی بجائے کچھ وفاقی لوگوں نے ہماری ننگی جمہوریت کو کپڑے پہنانے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ اب یہ سیاست دانوں پر ہے کہ وہ ننگی جمہوریت کیلئے شلوار قمیض کا چھ گز کپڑا پسند کرتے ہیں یا ڈیڑھ گز لٹھا۔

مزیدخبریں