مکرمی! ہمارے شیرازی صاحب اتنے مدھم اتنی سویٹ باتیں کیا کرتے تھے؟ شیرینی بانٹتے تھے۔ یہ صفت بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔ ہمارے پروفیسر مختار شیرازی صاحب ہم سب کو اداس کر گئے۔ شیرازی صاحب اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں انگریزی کے استاد تھے۔ روزانہ نہیں تو دوسرے تیسرے دن کالج آتے ہوئے یا کالج سے جاتے ہوئے یا کالج کے برآمدوں میں پیریڈ لینے کی دھن میں پروقار چال چلتے ہوئے مل جاتے۔ سرگوشی کے انداز میں کوئی مزاحیہ بات‘ مسکراہٹ تو ان کے چہرے کا حسن تھی۔ کالج کے ہر دوست سے خندہ پیشانی سے ملنا ان کا ماٹو تھا۔ ایک جگہ کام کرنے والوں میں بعض اوقات معمولی باتوں پر شکر رنجیاں پیدا ہو جاتی ہیں لیکن شیرازی صاحب کی شخصیت اتنی ٹھنڈی میٹھی تھی کہ ان کے منہ سے دل دکھانے والی بات کبھی نہ سنی۔ انگریزی بولتے تھے اور لکھتے بھی تھے لیکن احباب کے ساتھ ہمیشہ ٹھیٹھ پنجابی میں بات کرتے۔ اس صدمے نے مجھے ایک اور صدمہ یاد کرا دیا ہے۔ میں 1987ء میں گورنمنٹ شالیمار کالج میں بطور لیکچرر تعینات ہوا۔ اس وقت اس کالج کا نام گورنمنٹ کالج باغبانپورہ تھا۔ اس کالج کو سب معروف ٹی وی کمپیئر دلدار بھٹی کا کالج کہا کرتے تھے۔ جس شخصیت کو ٹی وی پر سارے کام تج کر دیکھا کرتے تھے‘ اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا‘ باتیں کرنا‘ چائے پینا‘ امتحانات میں تین تین گھنٹے ڈیوٹیاں دینا ایک عجیب سرشاری اور سرخوشی پیدا کرتا تھا۔گورنمنٹ شالیمار کالج میں پروفیسر نیراعظم (عمران خان کے فرسٹ کزن) کیمسٹری کے نہایت لائق فائق اور ذمہ دار استاد تھے۔ نیر صاحب کا رنگ سرخ و سفید تھا۔ دلدار صاحب انہیں ملتے ہی ایک آدھ جملہ خوب سجا دیتے کہ سب ہنس پڑتے۔ ایک دن دلدار بھٹی صاحب فرمانے لگے کہ میں عمران خان کو آفر دے رہا ہوں کہ مجھے اپنے ساتھ بیرون ملک لے چیں۔ کینسر ہسپتال کے لئے اتنے پیسے اکٹھے کر دوں گا کہ آپ کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا۔ لیکن عمران خان میری مفت آفر پر غور ہی نہیں کرتے۔ کہنے لگے۔ ’’مجھے بولنا آتا ہے‘‘ پھر عمران خان صاحب نے اس خوش گفتار شخصیت کی پیش کش قبول کی اور پھر دلدار بھٹی صاحب نے کینسر ہسپتال کے فنڈز اکٹھے کرنے کے لئے اپنی خوش گفتاری کے ایسے دریا بہائے کہ جاں سے ہی گزر گئے۔ جب دلدار صاحب کی سناؤنی ہمارے کالج پہنچی تو اس کے در و دیوار پر سناٹا چھا گیا۔ تینوں رون گے دلاں دے جانی‘ تے ماپے تینوں گٹ رون گے۔ دلدار بھٹی والا زخم ہمیں مختار شیرازی صاحب لگا گئے ہیں۔ شیرازی صاحب کالج میٹنگ اٹنڈ کرکے گھر چلے گئے۔ شام کے وقت ان کی موٹر بائیک کو کسی تیز رفتار گاڑی نے ہٹ کیا اور ان کا سر فٹ پاتھ سے ٹکرایا۔ تین دن آپ جنرل ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ پھر آپ اس سفر پر روانہ ہو گئے۔ جہاں سے آج تک کوئی پلٹ کر نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ شیرازی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (پروفیسر تنویر حسین لاہور)
شیرازی صاحب سب کو اداس کر گئے
Sep 03, 2015