راولپنڈی (نوائے وقت رپورٹ) بے نظیر بھٹو قتل کیس میں سابق وزیراعظم کے ڈرائیور اور استغاثہ کے گواہ جاوید الرحمان نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں شہادت قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ بے نظیر بھٹو کی اسلام آباد سے لیاقت باغ کے جلسے میں آمد کے موقع پر پولیس کی پوری سکیورٹی فراہم کی گئی تھی مگر جب بے نظیر بھٹو جلسے سے خطاب کے بعد 5 بجے واپس روانہ ہوئیں تو ان کے ساتھ پولیس کی سکیورٹی نہیں تھی نہ ہی عوام کے ہجوم کو راستے سے ہٹانے کے لئے پولیس موجود تھی ناہید خان کے کہنے پر بے نظیر بھٹو نے گاڑی میں کھڑے ہو کر ہاتھ ہلا کر عوام سے راستہ دینے کی اپیل کی تھی اس دوران تین چار فائر ہوئے اس کے بعد دھماکہ ہوا‘ میں گاڑی کو بھگا کر محترمہ کو ہسپتال لے جانے کے لئے مری روڈ پر لایا تو کمیٹی چوک میں گاڑی میں دھواں بھر گیا۔ اس موقع پر بے نظیر بھٹو کو دوسری گاڑی میں منتقل کر کے ہسپتال لے جایا گیا‘ میں اس دوران گاڑی کے پاس موجود رہا پولیس نے مجھ سے وہاں پر بیان لیا لیکن میری موجودگی میں اسے تحریر نہیں کیا تھا۔ میں وہی بیان عدالت میں دے رہا ہوں۔ مقدمے میں امریکی صحافی مارک سیگل کی ویڈیو لنک کے ذریعے شہادت قلمبند کرانے کے بارے میں وزارت داخلہ اور خارجہ کی طرف سے کوئی جواب داخل نہیں کرایا گیا چنانچہ خصوصی عدالت نے سماعت مزید شہادتوں کے لئے چودہ ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ تاریخ سماعت پر وزارت داخلہ و خارجہ سے مارک سیگل کی شہادت وڈیو لنک کے ذریعے قلمبند کرانے کے بارے میں مزید وضاحت طلب کر لی۔ نجی ٹی وی کے مطابق بے نظیر کے ڈرائیور جاوید الرحمن نے انکشاف کیا ہے کہ گاڑی کا سن روف ناہید خان کے کہنے پر کھولا گیا۔ سکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے گاڑی کو گھیر لیا تھا۔ ناہید خان نے بے نظیر بھٹو سے کہا کہ آپ کھڑی ہو جائیں اور لوگوں کے نعروں کا جواب دیں اور انہیں راستے سے ہٹائیں، وہ آپ کے سوا کسی کی نہیں سنیں گے۔ نجی ٹی وی رپورٹ کے مطابق جاوید الرحمن کے نئے بیان میں کچھ تضادات بھی سامنے آئے ہیں، جاوید الرحمن نے 8 سال پہلے بیان میں کہا تھا پولیس گاڑی کے سامنے لوگوں کو ہٹا رہی تھی، اب انہوں نے کہا ہے کہ گاڑی کی سکیورٹی ٹھیک نہیں تھی، گاڑی کے سامنے لوگوں کو ہٹانے والا کوئی نہیں تھا، اس کا بھائی رحمان ملک کی گاڑی کا ڈرائیور تھا۔ دھماکے کے بعد جب رحمان ملک سے رابطہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ زرداری ہاﺅس پہنچ چکے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کو فون آ رہے تھے، لوگ مسلسل انہیں جلسے کی کامیابی کی مبارکباد دے رہے تھے۔ سکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ نعرے لگاتے ہوئے گاڑی کے قریب آ گئے۔ گاڑی کے آگے اور پیچھے لوگ ہونے کے باعث راستہ بند ہو گیا۔ میں ہارن پر ہارن بجاتا رہا۔ خالد شہنشاہ بی بی کی گاڑی میں نہیں تھا۔ ناہید خان نے کہا ہے کہ 8 سال میں زرداری کے ڈرائیور کا بیان سامنے آنا سمجھ سے بالاتر ہے، مکمل بیان پڑھنے کے بعد ہی اس پر ردعمل دوں گی۔ کیس میں ہمیں گواہ بنایا گیا نہ ہی پوچھا گیا۔ امین فہیم، صفدر عباسی اور میں گاڑی میں موجود تھے، ہمیں جب بلایا جائے گا تو ہی بتائیں گے گاڑی میں کیا گفتگو ہوئی، بیان کا میڈیا سے پتہ چلا، ڈرائیور نے 8 سال بعد بیان دیا ہے، میں نے بیان پڑھا نہیں، جو جواب ہو گا وہ میں آفیشل ریکارڈ پر دوں گی۔ بی بی کی شہادت کو آٹھواں سال جا رہا ہے، زرداری کے ڈرائیور کا کہنا میرے لئے حیرت کی بات ہے، مجھے کورٹ جہاں بھی بلائے گی جاﺅں گی، وہیں پر ہی بیان دوں گی۔ یہی ڈرائیور گاڑی چلا رہا تھا، اس نے 10 سے 15 دن بی بی کی گاڑی چلائی لیکن اب یہ زرداری صاحب کا ڈرائیور ہے۔
ڈرائیور/ ناہید خان