اسلام آباد (جاوید صدیق) ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ کے قانون، تعلیم، بین الصوبائی رابطہ اور خزانہ کی وزارتوں پر فائز رہنے والے ممتاز قانون دان عبدالحفیظ پیرزادہ جنہیں مسٹر بھٹو نے ’سوہنا منڈا‘ کا خطاب دیا تھا ان چند سینئر سیاستدانوں میں شامل تھے جنہوں نے پاکستان کی تاریخ کے ہیجان خیز ادوار دیکھے۔ گذشتہ روز عبدالحفیظ پیرزادہ لندن کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کے والد عبدالستار پیرزادہ سندھ کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ حفیظ پیرزادہ مسٹر بھٹو کی پیپلز پارٹی میں شامل ان 30 لیڈروں میں شامل تھے جنہوں نے پی پی پی کی لاہور میں بنیاد رکھی تھی۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے بہت قریب اور ان کے معتمد خاص سمجھے جاتے تھے۔ 1973ءمیں پیپلز پارٹی کے اقتدار سنبھالنے پر بھٹو نے حفیظ پیرزادہ کو تعلیم کی وزارت کا قلمدان دیا۔ 1973ءمیں پیپلز پارٹی کے پہلے وزیر قانون میاں محمود علی قصوری کے پیپلز پارٹی سے مستعفی ہونے کے بعد وزیراعظم بھٹو نے قانون اور انصاف کا قلمدان عبدالحفیظ پیرزادہ کودے دیا اور حفیظ پیرزادہ آئین سازی کرنے والی اس کمیٹی کے سربراہ بن گئے جو 1973ءکا آئین تشکیل دے رہی تھی۔ 1973ءکے آئین کی تیاری میں پیرزادہ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ کئی حلقے انہیں 1973ءکے آئین کا مصنف قرار دیتے ہیں۔ 1973ءکے آئین کے نفاذ کے بعد حفیظ پیرزادہ بین الصوبائی امور کے وزیر بھی رہے۔ بعد میں بھٹو نے انہیں وزیر خزانہ بھی بنایا۔ جب بھٹو حکومت کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک شروع ہوئی تو عبدالحفیظ پیرزادہ بھٹو حکومت کے وزیر خزانہ تھے۔ 1973ءکے متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران پر جب پیپلز پارٹی اور پاکستان قومی اتحاد کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے توحفیظ پیرزادہ اس تین رکنی مذاکراتی ٹیم میں شامل تھے جو پیپلز پارٹی نے پی این اے کے ساتھ بات چیت کے لئے تشکیل دی تھی۔ پیرزادہ پی این اے کی طرف سے پیش کی گئی شرائط پر مبنی مصالحتی ڈرافٹ کی تیاری میں کردار ادا کرتے رہے۔ اپنے آخری دنوں کے ایک ٹی وی انٹرویو میں عبدالحفیظ پیرزادہ نے انکشاف کیا تھا کہ چار جولائی 1977ءکی رات کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور وہ امریکی سفارت خانہ کی یوم آزادی کی تقریب میں شریک تھے جہاں پاکستان قومی اتحاد کے ساتھ مذاکرات اور طے ہونے والے معاملات پر تبادلہ خیال ہوا تو بھٹو نے پیرزادہ سے کہا کہ وہ پی این اے کے ساتھ نئے انتخابات کے انعقاد کے لئے سمجھوتے کا مسودہ تیار کریں کل یعنی پانچ جولائی 1977ءکو اسی مسودے پر دستخط کر دیئے جائیں گے۔ پیرزادہ کے مطابق جب وہ تقریب کے بعد واپس گھر پہنچے تو انہوں نے پی این اے کے ساتھ مذاکرات کی دستاویزات کو دیکھنا شروع کیا تو ملازم نے آ کر بتایا کہ فوج گھر میں داخل ہو گئی ہے۔ فوجی افسر نے مسٹر پیرزادہ کو ساتھ چلنے کو کہا، جب مسٹر پیرزادہ فوجی بیرکوں میں پہنچے تو وہاں پہلے سے پی پی پی اور پی این اے کے لیڈر موجود تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو سمیت پی پی پی کے وزراءکو فوج نے حفاظتی تحویل میں لے لیا تھا۔ حفاظتی حراست ختم ہونے کے بعد ان لیڈروں کو نظربند بھی رکھا گیا۔ حفیظ پیرزادہ نے بعد میں چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاءالحق سے ملاقاتیں بھی کیں لیکن لیکن وہ مسٹر بھٹو کے لئے کوئی رعایت حاصل نہ کر سکے۔ عبدالحفیظ پیرزادہ پر پی پی پی کے کچھ حلقے یہ اعتراض کرتے رہے کہ جب 4 اپریل 1979ءکو بھٹو کو پھانسی دی گئی تو حفیظ پیرزادہ اپنی نئی بیگم کے ساتھ ہنی مون منانے گئے ہوئے تھے۔ بے نظیر بھٹو جب اقتدار میں آئیں تو انہوں نے حفیظ پیرزادہ سمیت ”انکلوں“ کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ عبدالحفیظ پیرزادہ آخری سالوں میں قانون کی پریکٹس کرتے رہے۔ آئینی معاملات پر وہ سپریم کورٹ میں قانون دان کے طور پر پیش ہوتے۔ ان کا آخری اہم کیس پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے جوڈیشل کمشن میں پیشی تھی لیکن یہ کیس مسٹر پیرزادہ نہ جیت سکے۔ بی بی سی کے مطابق پیرزادہ واحد پاکستانی خاندان ہے جس کی چار نسلیں بیرسٹر ہیں۔ حفیظ پیرزادہ کے دادا 1892ءمیں، والد 1930ءمیں ، خود حفیظ 1957ءمیں اور ان کے صاحبزادے عبدالستار پیرزادہ نے 2000ءمیں بیرسٹری کا گاو¿ن پہنا (عبدالحفیظ کے بھائی مجیب پیرزادہ نے بھی وکالت ہی اختیار کی)۔ عبدالحفیظ کے والد پیرزادہ عبدالستار پاکستان کی پہلی کابینہ میں وزیرِ خوراک و زراعت و صحت تھے۔ 1953ءمیں وہ سال بھر کے لیے سندھ کے وزیرِاعلی بھی رہے۔ بھٹو حکومت کا آخری بجٹ بھی انہوں نے پیش کیا۔ انہوں نے مشرف کا کیس بھی لڑا، زرداری کے مقدمات بھی لڑے، شہباز شریف کے این آر او کیس میں وکیل تھے۔ صدر مملکت ممنون حسین،وزیراعظم نوازشریف‘ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے عبدالحفیظ پیرزادہ کے انتقال پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ قائمقام صدر میاںرضا ربانی اور قائمقام چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے بھی عبدالحفیظ پیر زادہ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے کہا ہے کہ عبدالحفیظ پیرزادہ نے جوڈیشل کمیشن میں عوام کا کیس پیش کیا، سب پاکستانی لواحقین کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ قائم مقام سپیکرقومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی نے بھی عبدالحفیظ پیرزادہ کے انتقال پر گہرے دکھ و غم کا اظہار کیا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ایک بیان میں مرحوم عبدالحفیظ پیرزادہ کی آئین کی بالادستی، جمہوریت کے استحکام اور سیاسی و سماجی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔
عبدالحفیظ پیرزادہ