دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے کہا ہے کہ کوئٹہ کے سانحہ میں ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیںکیا جا سکتا جو کراچی اور بلوچستان میں بھی امن مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ بلوچستان سے گرفتار ’’را‘‘ کے ایجنٹ بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادو کا اعترافی بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے اور اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔ ادھر کوئٹہ میں ایک اور قافلے پر بم دھماکہ ہو گیا جس کے ٹارگٹ تو وفاقی شرعی عدالت کے جج تھے جو محفوظ رہے تاہم اس دھماکے کی وجہ سے پانچ اہلکاروں سمیت 17 افراد زخمی ہو گئے۔ کوئٹہ میں سریاب فلائی اوور کے قریب ریموٹ کنٹرول بم نصب تھا جیسے ہی جسٹس ظہور شاہوانی کی گاڑی وہاں سے گزری زور دار دھماکہ ہو گیا۔ دھماکے سے پولیس وین کو نقصان پہنچا جو جسٹس ظہور شاہوانی کی حفاظت کیلئے ساتھ چل رہی تھی۔ صوبائی وزیر دالہ کا کہنا ہے کہ پولیس اور ایف سی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کوئٹہ کے دھماکے کے بعد عام خیال یہی تھا کہ بلوچستان میں عدلیہ نشانے پر ہے۔ دھماکے سے پہلے ایک وکیل رہنما کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور جب اس واقعہ کے بعد بڑی تعداد میں وکیل ہسپتال پہنچے تو وہاں خودکش بمبار کے ذریعے دھماکہ کر دیا گیا جس کا انتظام منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا تھا۔ دھماکے میں وکلاء کے ساتھ ساتھ ہسپتال کی ایمرجنسی میں موجود مریضوں، ان کے لواحقین، ہسپتال کے عملے سمیت 70 سے زائد لوگ شہید ہو گئے۔ ابھی اس دھماکے کا سوگ منایا جا رہا ہے اور پورا ملک اور صوبہ صدمے سے نڈھال اور رنج و غم میں دوبا ہوا ہے تو ایک دوسرا دھماکہ ہو گیا۔ جس میں اگرچہ جانی نقصان تو نہیں ہوا تاہم 17 افراد کا زخمی ہونا بھی معاملے کی سنگینی کا ظاہر کرتا ہے اور خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ اصل ٹارگٹ دھماکے کے وقت وہاں سے گزر چکے تھے تاہم لمحہ فکریہ یہ ہے کہ چند ثانیوں کے آگے پیچھے ہونے سے ایک بڑا حادثہ ٹل گیا۔ ورنہ عدلیہ کیلئے ایک اور سانحہ ہوتا۔ اب رہا یہ سوال کے دھماکے میں ’’را‘‘ کے کردار کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ امر تو واضح ہے کہ صوبے میں ’’را‘‘ کی امن دشمن سرگرمیوںکے شواہد موجود ہیں۔ خود دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں ’’را‘‘ کے ایجنٹ کی گرفتاری اور اس کے اعترافی بیان کا حوالہ دیا ہے جس نے کراچی اور بلوچستان میں اپنا نیٹ ورک بنانے کا اعتراف کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری اس کی تخریب کارانہ سرگرمیوں کا خصوصی ہدف تھا جس کیلئے اس نے مقامی ایجنٹ بھرتی کر رکھے تھے۔ اس تفتیش کی روشنی میں عین ممکن ہے کہ اس نیٹ ورک میں شامل لوگوں کی گرفتاریاں ہوئی ہوں تاہم بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ ’’را‘‘ کا بنایا ہوا نیٹ ورک نہ صرف قائم ہے بلکہ کام کر رہا ہے اور کوئٹہ کے دھماکے میں ’’را‘‘ کے ہاتھ کا تذکرہ وزیر اعلیٰ سے لے کر ترجمان دفتر خارجہ تک کر رہے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کوئٹہ دھماکے کے فوراً بعد اجلاس میں اس خیال کا اظہار کیا کہ دہشت گردوں کا اصل ہدف پاک چین اقتصادی راہداری ہے جس سے حاصل ہونے والی خوشحالی کا تصور پاکستان کے دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ بھارتی ایجنٹ نے جو نیٹ ورک بنایا تھا ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اس میں کام کرنے والے مقامی ایجنٹ ابھی تک متحرک ہیں۔ تین دن کے وقفے کے بعد دو دھماکے اس امر پر دلالت ہیں۔ اس لئے اب بھی بعید نہیں کہ اگر فول پروف سکیورٹی کے انتظامات کئے گئے تو بھارتی ایجنٹوں کے یہ آلہ کار کہیں نہ کہیں اور دھماکہ کر دیں۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے جو یہ کہا ہے کہ سکیورٹی صرف کاغذوں پر نظر آتی ہے مزید سانحہ کا انتظار نہیں اقدامات کریں۔ ان کے اس ارشاد کی روشنی میں ضرورت ہے کہ سکیورٹی کے قابل بھروسہ انتظامات کئے جائیں۔ یہ امر تو واضح ہے کہ اگر پہلے سے ایسے انتظامات ہوں اور ان میں خامیاں موجود نہ ہوں تو دہشت گرد اپنے عزائم اور منصوبہ بندی میں کامیاب نہ ہوں۔ کہیں نہ کہیں کمزوری تو ضرور ہے جس کا فائدہ اٹھا کر دہشت گرد دھماکے کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کوئٹہ دھماکے کے بعد اعلیٰ سطح پر جو اجلاس ہو رہے ہیں ان میں ایسی خامیوں کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے اور یہ طے کیا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکاتی پروگرام پر پوری طرح کیا جائے گا، سیاسی و عسکری قیادت کے اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کی نگرانی کیلئے ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس طویل اجلاس میں اب تک نیشنل ایکشن پلان میں روا رکھی جانے والی سستی کا جائزہ لیا گیا اور یہ محسوس کیا گیا کہ 20 میں سے 80 نکات پر پیش رفت نہ ہو سکی۔ اس امر کا بھی گہرائی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ جن نکات پر عملدرآمد نہیں ہو سکا اسکی وجہ آخر کیا تھی؟