بارشیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں ٗ آسمان سے پانی برسنا تو رک جاتا ہے لیکن آنکھوں کا پانی ہے کہ خشک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ٗ ماہ اگست شاید ہمارے لئے اب آنسوئوں کا نام ہی بن گیا ہے ۔ ہر بچے کے ذہن میں بچپن سے ہی جو سب سے بڑا ڈر بیٹھا ہوتا ہے وہ اس کے ماں باپ کی جدائی کا ڈر ہوتا ہے ۔ہم بھی اسی ڈر کو بغل میں لے کر بڑے ہوئے اور ساتھ ساتھ یہ ڈر بھی بڑا ہوتا رہا ۔ جمعرات 25اگست کی صبح یہ ڈر پوری ہولناکی کے ساتھ ہمارے سامنے آ گیا جب میو ہسپتال کے ICU میں ہمارے رفیق ٗ ہماری زندگیوں کے سب رنگ ٗ سب خوشیاں ساتھ ہی لے کر باغ عدن میں جا سوئے ۔ ابو جی کے ساتھ آخری بار گھر جاتے ہوئے میں نے چادر کے اندر سے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا تو یخ بستہ ہاتھ میں سے بھی لمس اور محبت میرے اندر منتقل ہوتی رہی ۔ ایک جھٹکا لگا اور میں نے ڈرائیور کو کہا ’’ بھائی !ذرا احتیاط سے چلائو‘‘۔ اب میں اسے کیا بتاتا کہ ابو جی کو کسی کام میں رکاوٹ اور خلل اچھا نہیں لگتا تھا۔ وقاص نے ابو کے سر کے پیچھے ہاتھ رکھ دیا کہ اگر جھٹکا لگے تو ابو کا سر کسی چیز سے نہ ٹکرائے۔ ابو کو لیکر گھر پہنچے تو جیسے وہ کسی کھنڈر میں تبدیل ہو چکا تھا ٗ درو د دیوار پر اک نہ ختم ہونے والی اداسی نے ڈیرے ڈال لئے تھے۔ لیکن یہ اداسی ٗ یہ وحشت 16سال قبل ہی ہمارے رفیق کے وجود پر طاری ہو چکی تھی جب 1999ء میں مملکت خداد میں جمہوری حکومت کا خاتمہ کیا گیا ۔ ابو جی اس وحشت ٗ اس اداسی ٗ اس بیماری کو اپنی جان پر سہتے رہے اور آخر کار اسی دکھ نے ان کی جان لے لی۔
مشرف کے مارشل لاء کے بعد ہر طرف ہو کا عالم تھا ٗ سب کو علم تھا کہ بغاوت کی ہلکی سی چنگاری کو بھی فوجی بوٹوں تلے مسل دیا جائے گا۔ اس سیاہ دور میں ہمارے رفیق نے یہ مستند تاریخ لکھی کہ پرویز مشرف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ٗ اس کے سامنے کھڑے ہو پاکستان کے طول و ارض میں سب سے پہلے کلمہ حق کہا۔ یہ بات ہے 15اکتوبر 1999ء ٗ مارشل لاء سے صرف تین دن بعد جب مشرف نے اپنی پہلی پریس کانفرنس کی تو اسلام آباد میں ہمارے رفیق نے ان کے سامنے تین سوال رکھے (1)آپ کہہ رہے ہیں آپ سیاست میں نہیں آنا چاہتے تھے اور آپ کو دھکا دیا گیا ہے ٗ آپ کو دھکا دینے والے کون ہیں ؟ اور آپ نے کس قانون کے تحت اقتدار پر قبضہ کیا ہے (2) ایوب خان آیا تو گوہر ایوب دے گیا ٗ ضیاء الحق آیا تو اعجاز الحق دے گیا ٗ آپ بلال مشرف ہمیں دے کر کب جا رہے ہیں؟ (3) کیا آپ کارگل مشن کے ذمہ دار ہیں اورآپ کب اس پر کمیشن قائم کر رہے ہیں؟‘‘۔ پرویز مشرف کو بالکل بھی امید نہیں تھی کہ کوئی اس طرح سے اس سے سوال کر سکتا ہے اس لئے وہ ڈگمگا گیا اور صرف اتنا ہی کہہ سکا ’’میں قانون کے مضمون میں فیل ہو گیا تھا ٗ میری لیگل ٹیم اس کا جائزہ لے رہی ہے اور مجھے خوشی ہوئی آپ کو میرے بیٹے کا نام معلوم ہے ‘‘۔ یہاں پر ہی بس نہیں ٗ تاریخ مجھے یاد نہیں ٗ بات ہے گورنر ہائوس لاہور کی اور سال وہی 1999ء ۔ مشرف کی مارشل لاء کے بعد لاہور میں پہلی پریس کانفرنس تھی وہاں پر دوبارہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہا گیا سوال کیا ’’ کیا آپ جانتے ہیں کہ بابائے قوم نے فوج کے کردار کے بارے میں کیا فرمایا تھا اور کیا آپ اس پر عمل کر رہے ہیں ؟‘‘۔ میاں شریف جب دنیا سے رخصت ہوئے تو یہاں پر ان کی وفات پر افسوس کرنے کی جرات کسی میں نہ تھی تو ہمارے رفیق نے لاہور میں میاں شریف کیلئے ایک تعزیتی ریفرنس کروایا جس میں مرد مجاہد مجید نظامی بھی شریک ہوئے۔ مشرف نے جب بھی جمہوری عمل کیخلاف یا جمہوری نمائندوںکیخلاف بات کی تو ابو جی نے اس کا جواب دیا ’’مشرف نے ایک بار کہا No Nawaz Sharif No Benzir تو ہمارے رفیق نے نوائے وقت کے انہی صفحات پر No General No کے عنوان سے کالم لکھا ۔
ظاہری طور پر تو ابو جی مارشل لاء کے اس سیاہ دور کیخلاف نبرد آزما تھے لیکن ان کے ذہن میں ایک طوفان برپا تھا ٗ اک اذیت ٗ وحشت کا دریا موجزن تھا ٗ اسی ذہنی کیفیت میں جب ایک روز سرکاری ٹی وی پر انہوں نے فوجی وردی میں کسی کو زراعت کے طریقے اور کسی فصل سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کی ہدایات دیتے دیکھا تو ان کے دماغ کی شریان پھٹ گئی ٗنظر نے کام کرنا چھوڑ دیا ٗ بائیں سائیڈ کمزور ہو گئی ۔ دوسری طرف آمرانہ قوتوں نے جو سب سے بڑا کراس لگایا تھا تو وہ رفیق غوری کے نام پر تھا۔ انہوں نے آہستہ آہستہ ہماری فیملی کی آمدن کے تمام ذرائع مسدود کرنا شروع کر دئیے ۔ ہماری اس وقت کی پاکستان کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی جی این این کے پاکستان بھر کے دفاتر کو بند کر دیا گیا ٗ مالکان پر دبائو ڈالا جانے لگا کہ ان کے دفاتر کو بند کر دیا جائے ٗ لاہور ہیڈ آفس کو آگ لگا دی گئی ٗ ہمارے رفیق دو سال تک گھر میں بیماری سے لڑتے رہے اور اس دوران ہم موم بتیوںکے ذریعے روشنی حاصل کرتے رہے اور والدہ لکڑیاں جلا کر ہمیں کھانا کھلاتی رہی ٗ اس وقت تک جب ابو جی دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو کر گھر سے باہر نہ نکلے۔ (جاری)