تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز انکوائری کمشن کی مدد واعانت کی پابند ہونگی

اسلام آباد (عترت جعفری) پاکستان کمشنز آف انکوائری ایکٹ 2016 جو قومی اسمبلی میں متعارف کرایا گیا ہے کے تحت وفاقی اور صوبوں کے تمام ایگزیکٹو اتھارٹی کمشن کی کارروائی میں مدد و اعانت فراہم کرنے کی پابند ہوگی اور اس کی ہدایات پر عمل کرے گی کمشن کسی عبوری یا حتمی رپورٹ کو پبلک نہ کرنے کی سفارش کر سکتا ہے کمشن کے روبرو اگر کوئی فرد شہادت دیتے ہوئے جو بیان دے گا وہ اس کے خلاف کسی فوجداری یا سول کارروائی میں استعمال نہیں کیا جا سکے گا تاہم غلط بیانی یا غلط ثبوت پر کارروائی ہو سکے گی اس ایکٹ کے مؤثر ہونے کے بعد 1956ء کا ایکٹ ختم ہو جائے گا مجوزہ ایکٹ کے تحت وفاقی حکومت سرکاری نوٹیفکیشن کے ذریعے کمشن تشکیل دے سکے گی اگر کمشن کے ایک سے زیادہ ممبران ہوں تو ان میں سے ایک کو چیئرمین بنا سکے گی وفاقی حکومت میعاد کا تعین کر سکے گی جس کے اندر انکوائری مکمل ہونا ہے تاہم کمشن کے چیئرمین کی درخواست پر میعاد کو بڑھایا جا سکتا ہے کمشن کسی بھی شخص کو بیان حلفی کے لئے بلا سکے گا کمشن کو اختیار ہوگا کیس کی سماعت کے لئے مجسٹریٹ کو بھیج سکے گا کمشن کو چیئرمین یا ان کی طرف سے مجاز افسر جو گریڈ 17 یا اس سے زائد گریڈ کا ہو سکتا ہے کسی بھی عمارت میں جہاں ریکارڈ موجود ہو داخل ہو کر اسے حاصل کرنے کا مجاز ہوگا‘ ریکارڈ کو قبضہ میں لے سکے گا کمشن پولیس کو کسی بھی معاملہ کی تفتیش کرنے کا حکم دے سکے گا کمشن کو کارروائی میں مداخلت ‘ کمشن کو سیکنڈ لائز کرنے یا حکم عدولی کرنے کے معاملہ میں سزا دینے کے لئے ہائی کورٹ کے مساوی اختیارات حاصل ہوں گے ’’جج‘‘ کی تعریف میں چیف جسٹس شامل ہوں گے وفاقی حکومت تمام ضروری مالی وسائل فراہم کرے گی کمشن کو انکوائری میں مدد کے لئے سرکاری افسروں اور ماہرین پر مشتمل خصوصی ٹیمیں بنانے کا اختیار حاصل ہوگا بین الاقوامی ٹیم اور بین الاقوامی تعاون بھی حاصل کر سکے گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...