سوشل میڈیا کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانے پر کارروائی ہو گی: حکومت

Sep 03, 2016

لاہور (خصوصی نامہ نگار) پنجاب اسمبلی نے پشاور کی مسیحی کالونی میں دہشت گردی کے واقعہ کے خلاف آؤٹ آف ٹرن مذمتی قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کرلی۔ حکومتی اقلیتی رکن شہزاد منشی کی جانب سے مذمتی قرارداد آئوٹ آف ٹرن پیش کرنے کی تجویز پیش کی گئی تو سپیکر نے حکومت و اپوزیشن کو مشترکہ طور پر قرارداد پیش کرنے کا کہا بعدازاں قرارداد صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان کی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ ورسک روڈ پشاور میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ کی پنجاب اسمبلی کا ایوان شدید مذمت کرتا ہے اور اس پر گہرے رنج و غم کا بھی اظہار کرتا ہے۔ قرارداد میں کہا گیا کہ اقلیتوں کو نشانہ بنا کر پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی یہ ایک سازش جسے ہمارے سکیورٹی اداروں نے بروقت کارروائی کرکے ناکام بنا دیا ہے یہ ایوان ان سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے اور کامیابی کے لئے دعا گو ہے۔ قبل ازیں اجلاس شروع ہوا تو صرف 4 ممبران جن میں 3خواتین اور ایک مرد ممبر شامل تھے موجود تھے۔ اپوزیشن کا کوئی بھی رکن ایوان میں موجود نہ تھا۔ اجلاس میں محکمہ آثار قدیمہ‘ سپورٹس اور صنعت و تجارت کے بارے میں سوالوں کے جوابات دیئے گئے۔ امجد علی جاوید کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر صنعت و تجارت چودھری محمد شفیق نے کہا کہ پولی ٹیکنیکل کالج ضلعی سطح پر بنائے جاتے ہیں۔ وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان نے بچوں کے اغوا میں شدت کے حوالے سے خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے بچوں کے اغوا کے حوالے سے پھیلائی جانے والے خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے، سائبر قانون کے تحت حکومت نے کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر پہلے سوشل میڈیا کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانے والوں کو ایک نوٹس کے ذریعے وراننگ دی جائے گی، اگر پھر بھی وہ نہ رکا تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’’امن و امان کی صورتحال‘‘ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کیا۔ صوبائی وزیر نے گزشتہ 5سالوں کی بچوں کے اغواء کے حوالے سے رپورٹ ایوان میں پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سال2011ء میں 1272بچے اغواء ہوئے جن میں سے 1262بچے بازیاب کرا لئے گئے 2012ء میں 1260بچے اغواء ہوئے جن میں سے1256بازیاب کرالئے گئے2013 ء میں1157اغوا ہوئے جن میں 1141بازیاب کرالئے گئے2014ء میں1203اغواء ہوئے جن میں سے 1185بازیاب کرا لئے گئے2015ء میں1234 اغوا ء ہوئے جبکہ1193بازیاب کرالئے گئے، اس طرح جولائی2016ء تک767بچے اغواء ہوئے جن میں سے715بازیاب کرالئے گئے، 139بچے ابھی تک اسیے ہیں جو بازیاب نہیں ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ خواف ہراس پھیلانے والے گروہ کی ایک مخصوص بیک گراؤنڈ ہے اور اس گروہ کے خلاف حکومت ایکشن لینا چاہتی تھی لیکن شہباز شریف نے روک دیا۔ہیلتھ کے ماہرین نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے مغوی بچوں کے اعضا باہر نہیں بھیجے جا سکتے نہ ہی وہ کسی دوسرے شخص کو ؛ لگائے جا سکتے ہیں، نیشنل ایکشن پلان کوئی ایسا بٹن نہیں کہ دبائیں تو سب ٹھیک ہو جائے ، اس کے20نکات ہیں جن میں سے پہلے تین انتہائی اہم ہیں اور تنقید کرنے والوں کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ قومی ایکشن پلان کتنے نکات پر مشتمل ہے۔ نیشنل ایکشن پلان اور کومبنگ آپریشن کے ذریعے اب تک 15483دینی مدارس کی جیو ٹیگنگ کی گئی ہے ان مدارس میں11لاکھ سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں13سو کا تعلق بیرون ممالک سے ہے ان مدارس میں215 اساتذہ فورتھ شیڈول میں تھے ، اسی طرح اب مساجد کی بھی جیو ٹیکٹنگ کی جا رہی ہے۔ پنجاب سے کومبنگ آپریشن کے ذریعے 243ایسے دہشت گرد بھی پکڑے ہیں جو جیٹ بلیک دہشت گرد ہیں اور انہیں ان کے انجام تک بھی پہنچایا جا چکا ہے۔640خطرناک دہشت گردوں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ ان دہشت گردوں کا مقصد پاکستان میں افرا تفری اور انتشارپھیلانا، ترقیاتی منصوبوں کو روکنا اور سی پیک پروجیکٹ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا ہے‘ اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ صوبائی وزیر قانون نے پنجاب اور خاص طور پر لاہو رمیں اغواء ہونے والے بچوں کی تعداد جو بتائی ہے وہ حقائق پر مبنی نہیں ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر بھی اگر عمل ہو رہا ہوتا تو جنرل جنجوعہ کی سربراہی میں بنائی جانے والی مانیٹرنگ کمیٹی کی ضرورت پیش نہ آتی، اصل مسئلہ نیشنل ایکشن پلان کے لئے 25 ارب روپے فنڈز کا ہے جو حکومت نے جاری نہں کئے ۔ ہر سال پولیس کے بجٹ میں 15سے 20فیصد تک اضافہ کردیا جاتا ہے لیکن کرائم بھی اسے ریشو سے بڑھ رہا ہے۔ پنجاب میں پولیس کے معاملات اس قدر خراب ہیں کہ ایف آئی آر درج نہیں ہوتی، انہوں نے پنجاب حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اور کچھ نہیں تو ایف آئی آر کے اندراج کے لئے آن لائن سسٹم شروع کرا دیں۔

مزیدخبریں