کراچی (ایجنسیاں) سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں نیب اختیارات کے حوالے سے جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سندھ میں کلرکوں اور چھوٹے افسروں کو رضاکارانہ سکیم کے تحت پیسے لے کر نوکریوں پر واپس بھیجا جا رہا ہے۔ پیسے لے کر نوکری پر بحال کرنا کرپشن کو ضرب دینے کے مساوی ہے۔ دو رکنی بنچ نے معاملہ لارجر بنچ تشکیل دینے کے لئے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو بھیج دیا ہے۔ بنچ کا کہنا تھا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کا اہم معاملہ ہے۔ اس لئے لارجر بنچ تشکیل دیا جائے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے حکم میں لکھوایا ہے کہ نیب رضاکارانہ رقوم کی مد میں کروڑوں روپے کی کرپشن کرنے والوں کو آدھی رقم واپس لے کر انہیں اپنی پوزیشن پر واپس بحال کر دیتا ہے۔ افسروں، کلرکوں اور سرکاری ملازمین کے خلاف کوئی محکمہ جاتی کارروائی نہیں کی جاتی۔ دو رکنی بنچ نے لارجر بنچ تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ تین سوالات اٹھائے ہیں جو سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کو بھیجے جا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کا لارجر بنچ یہ طے کر لے کہ نیب، اینٹی کرپشن اور ایف آئی اے کی اختیاراتی حدود کیا ہیں اور ایسے کون سے کیسز ہیں جو نیب میں چلائے جا سکتے ہیں۔ کون سے کیسز اینٹی کرپشن اور کون سے کیسز ایف آئی اے دیکھ سکتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ نیب میں زیرسماعت ایسے کیسز جو ایک کروڑ روپے سے کم مالیت کی کرپشن کے ہیں کیا ان کیسز کو اینٹی کرپشن کورٹس میں بھیجا جا سکتا ہے۔ عدالت نے نیب کو رپورٹ پر اظہار برہمی کا اظہار کیا، جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریماکس دیئے کہ یہ ڈیڑھ سے 2 لاکھ کی انکوائریاں کس قانون کے تحت کی جا رہی ہیں۔ عدالت نے کہا ڈی جی صاحب! آپ کو پتہ ہے آپ نے 4 لاکھ روپے کی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے، آپ نے کس کی اجازت سے یہ اپیل دائر کی؟ ڈی جی نیب نے کہاکہ چیئرمین نیب کی اجازت سے اپیل دائر کی تھی۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ نیب میگا کرپشن کے خلاف بنایا گیا تھا، چھوٹی چھوٹی کارروائیوں کے لئے نہیں۔ وفاق نے جو بڑی بڑی رقوم معاف کیں ان کا کیا بنا؟ نیب کا انکوائری افسر روز جا کر کلرکوں اور چھوٹے افسروں کو نوچتا ہے، ان کو نوکری سے معطل کروا دیا جاتا ہے اور بعد میں رضاکارانہ سکیم کے نام پر پیسے واپس لے کر دوبارہ نوکریوں پر واپس بھیج دیا جاتا ہے اور پھر یہی چھوٹے افسر واپس جاکر لوٹ مار میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ڈی جی نیب سندھ سراج النعیم سے استفسار کیا کہ آپ کب سے اور کس ادارے سے نیب میں آئے جس پر ڈی جی نیب نے جواب دیا کہ میں پاک آرمی سے ڈیپوٹیشن پر 2001 میں نیب میں آیا اور میں ریٹائر نہیں ہوا بلکہ ٹرانسفر کے بعد نیب میں ضم کردیا گیا جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ نیب میں تو ضم ہونے کا قانون ہی نہیں، اتنے حساس اور ذمہ دار عہدے کی تقرری کے لئے اشتہار دیا جانا چاہئے تھا۔ عدالت میں پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ وفاقی حکومت ہمیں وہ ریفرنس بھیجتی ہے جس کی ریکوری نہیں ہو پاتی۔ عدالت نے کہاکہ وفاقی حکومت نے جو اتنی بڑی بڑی رقوم معاف کی ہیں ان کا کیا بنا، جتنی رضاکارانہ ریکوریاں ہوئی ہیں انکی اور ریفرنسز کی تفصیلات ہمیں پیش کریں۔ عدالت نے چیئرمین اینٹی کرپشن اور ڈائریکٹر ایف آئی اے کو بھی طلب کر لیا۔ عدالت میں چیئرمین اینٹی کرپشن نے کہاکہ 2 فیصد ریکوری کا ریشو ہے۔ عدالت نے کہاکہ آپ کے قوانین میں اتنی مشکلات ہیں کہ ریکوریاں کرتے کرتے سالوں گزر جاتے ہیں، عدالت نے نیب کے اختیارات سے متعلق حکم دیا کہ نیب آرڈیننس سے متعلق رہنما اصول طے کرے، ہماری نظر میں رضاکارانہ واپسی کی دفعہ آئین سے متصادم ہے، رضاکارانہ واپسی سے کرپشن بڑھی ہے کم نہیں ہوئی، نیب کی تشکیل کا مقصد بدعنوانی ختم کرنا تھا، رقوم کی وصولی نہیں۔