نئے پاکستان کے نئے وزیراعظم عمران خان کے مسندِ اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد برطانوی پاکستانیوں کے تاثرات کے عنوان سے لکھے گذشتہ ”ولایت نامہ“ کو پاکستان سمیت متحدہ عرب امارات، یورپ، امریکہ اور برطانیہ میں مقیم چاہنے اور دینے والوں نے شاید اس لئے بھی زیادہ پسند کیا کہ ”پرانے پاکستان“ کی بوسیدہ سیاست کو جو 78 کی دہائی میں یہاں امپورٹ کی گئی اور پھر آہستہ آہستہ یہی سیاست ایک منافع بخش کاروبار کا روپ دھارگئی۔ عمران خان صاحب سے درخواست کی تھی کہ نئے پاکستان کے حوالہ سے وہ اوورسیز اور بالخصوص برطانوی پاکستانیوں کی فکرو نظر اور اُن کی بکھری قومی سوچ کو یکجا کرنے کیلئے ایسے اقدامات کریں جس سے اِنکے Patriotie Thoughts میں مزید استحکام پیدا ہو سکے۔
مجھے وہ دِن آج بھی بخوبی یاد ہیں جب پاکستان سے ہر تیسرے چھوتھے ہفتے کوئی نہ کوئی اہم سیاسی شخصیت وزیر مشیر بُخار فلُو Broncnitis، جسم کے مختلف حصوں کی پیوندکاری اور M-O-T طرز کے سالانہ ہیلتھ چیک اپ کے لئے جب لندن کے مہنگے ترین ہسپتالوں میں آتے تو پارٹی کے خوشحال رہنما اور کارکنان اپنے ریستورانوں کے دروازے اُنکے لئے کھول دیتے جہاں روسٹ مرغی، کباب، بریانی اور اعلیٰ قسم کے ولایتی مشروبات سے اُنکی تواضع کی جاتی .... اِس خصوصی میزبانی کے بارے میں اُن سے جب بات ہوتی تو جواب ایک ہی ملتا کہ کل کو اگر ہماری پارٹی کی حکومت آگئی تو آج کی ”میزبانی“ کا صلہ کسی ”پروٹوکول ٹائپ“ اختیارات سے مل جائیگا؟ وزیر مشیرنہ سہی ! پی آئی اے، ریلوے، ٹاسک فورس، اوور سیز، یا پھر پاکستان ائر پورٹس پر خصوصی فری لیگج کے ہمراہ پروٹوکول کی کم ازکم سہولتیں تو دستیاب ہونگی۔ ؟ اِن بھولے مگر پروٹوکول کے متلاشی دوستوں کو جب یہ بتایا جاتا کہ اُنکی سوچ محض ایک خواب ہے جو کبھی پورا نہیں ہو گا تو وہ اکثر برا مان جاتے اور پھر اُنہیں جب پاکستان جانے کا موقع ملتا .... واپسی پر اُن سے اِسی ”پروٹوکول“ کے حوالہ سے ملاقات ہوتی تو اُنکی لمبی آہیں اِس بات کی خماز ہوتیں کہ انگلستان میں جب سیاسی قائدین سے اُنہوں نے تو قعات وابستہ کیں پاکستان میں اُن سے ملاقات تو دور کی بات ٹیلی فون تک اُٹھانا اُنہوں نے گوارہ نہ کیا؟ ایسے دوستوں میں سے اب کئی تو اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں.... جو بھی ریستورانوں اورٹیک اویزیٹس کے مالکان تھے اُن میں سے بیشتر مقروض اور بعض تو مورگیج ادا نہ کرنے کی پاداش میں اپنے مکانوں سے بھی ہاتھ دھو چکے ہیں.... سیاست کے اِس ”چسکا“ سے جنہوں نے توبہ کی اُن میں سے کئی دوست اب STRESS۔ اور دیگر ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہیں۔ سخت سردی اور برف باری میں کی اُنکی محنت کی کمائی کے وہ دِن جب اُنہیں یاد آتے ہیں تو اُنکی آنکھوں میں تیرتے آنسوو¿ں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے .... برطانوی پاکستانیوں کو ”پاکستانی سیاست“ میں اپنا نام اور مقام بنانے کیلئے برطانوی پونڈوں کی یہاں چونکہ ہمیشہ ضرورت رہی ہے اسلئے ریستورانوں، کنسٹرکشن کمپنیوں، کیش اینڈ کیریز، منی کیب دفاتر اور فوڈسٹوروں کے مالکان سمیت بے روزگاری الا¶نس پرگزارہ کرنےوالوں کی ایک بڑی تعداد نے اب انگلستان اور سکاٹ لینڈ کے مختلف شہروں میں اپنی مدد آپ کے تحت قائم کی، پی ٹی آئی تنظیموں کو فوری جوائن کرنے کیلئے ہاتھ پاو¿ں مارنا شروع کر دیئے ہیں ان افراد کی بنیادی خواہش ہی یہ ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو سکے عمران خان صاحب تک وہ رسائی حاصل کرنے میں کا میاب ہو جائیں تاکہ ”نئے پاکستان“ کے نئے سیٹ اپ میں انہیں بھی کہیں ایڈجسٹ کر لیا جائے۔ ان بھولے بادشاہوں کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ”ملنے ولنے“ والا معاملہ اور سوچ اب ختم ہو چکی، اب تو پاکستان کو صبح و شام مالی، معاشی اور اقتصادی طور پر مضبوط بنانا ہے۔ اپنا تن من دھن سب کچھ ملک کے استحکام پر نثار کرنا ہے۔ برطانیہ میں قوم کی لوٹی دولت اور اثاثوں کو جتنی جلدی ممکن ہو سکے واپس وطن لانا ہے۔ وہ دِن گئے جب مسلم لیگ )ن( میں اوورسیز اور باالخصوص برطانوی پاکستانیوں کے مخصوص کارکنوں اور رہنماو¿ں کو پی آئی اے ، بنکوں، ریلوے، وفاتی اور پنجاب اوورسیز کمشن میں TASK FORCE سمیت متعدد من پسند افراد کو عہدوں پر فائز کر دیا گیا ہے مگر اب دور اوورسیز پاکستانی جنہیں بغیر خوف و خطر اپنے وطن میں سرمایہ کاری کرنی ہے ۔”نئے پاکستان“ کے پہلے فیز کی کامیابی کو دیکھنے کے متمنی ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل کے م¶ثر حل اور ان کے فلاحی منصوبوں کے بارے میں اجتماعی سطح پر بغیر کسی PORTFOLIA یا DESIGNATION سوچا جائے۔ برطانوی پاکستانیوں کو پچھلی حکومتوں سے جس قدر شکایات رہیں اُنکا درست اندازہ لگانا گو آسان ہیں تاہم پی ٹی آئی کی برطانوی تنظیموں پر اب یہ لازم ہوگا کہ وہ عہدوں یا کرسی کے حصول کے بجائے اپنی توجہ کا محور پاکستانیوں کے مسائل کے فوری حل پر مرکوز رکھیں مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ وزیراعظم عمران خان اوورسیز پاکستانیوں کی وزارت کا قلمدان کس شخصیت کو دینا چاہتے ہیں تاہم وزیر کوئی بھی بنے احتیاط یہ رکھی جائے کہ اوورسیز پاکستانیوں سے اُسکا رابطہ منقطع نہ ہونے پائے۔ ایک عام محنت کشی کو بھی اپنے وزیر تک مسائل لے جانے کی رسائی ہو۔ مسائل کی ”مانیٹرنگ“ کے بعد وزیر، وریراعظم کو رپورٹ دینے کا پابند ہو! احتیاط یہ بھی رکھی جائے کہ اوورسیز منسٹر کا انتخاب پاکستان سے ہی کیا جائے۔ بیرون ممالک تحریک انصاف کی تنظیموں سے اِس اہم ترین ذمہ داری کیلئے کسی شخصیت کا چناو¿ اس قابلیت پر نہ کیا جائے کہ اُس شخصیت کے پاس ریال، درہم، ڈالر یا پونڈز کتنے ہیں اس سلسلہ میں وزیراعظم کی بہترین معاونت پنجاب کے گورنر چودھری سرور کرسکتے ہیں۔ اب یہ سوال کہ اوور سیز پاکستانوں کے بنیادی مسائل ہیں کیا ؟ یہ کسی سابقہ حکومت سے ڈھکے چھپے نہیں۔ جائیداوں، مکانات اور محنت کی کمائی سے خریدے پلاٹوں پر قبضے، پولیس کی ملی بھگت سے ہراساں، ہوائی اڈوں اُترتے ہی ان کے ذاتی سامان اور پاسپورٹوں کی ”اوراق گن گن کرتلاشی“ کسٹم، ایف آئی اے اور سکیورٹی فورس کی جانب سے کوئی معمولی سوال پوچھنے پر ان سے ناروا سلوک، GREEN CHANL کے بارے میں غلط معلومات کی فراہمی اور سالانہ 2 ارب روپے زرمبادلہ بھجوانے والوں کی عزت نفس کو مجروع کرنا وہ بنیادی مسائل میں جن سے وزیراعظم خود بھی اچھی طرح واقف ہیں۔
جناب عمران خان انگلستان میں ایک طویل عرصہ گزار چکے ہیں اُنہیں بخوبی علم ہے کہ برطانوی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتے؟ اُنہیں یہ بھی علم ہے کہ ہیتھرو سے روانہ ہونےوالی ”باکمال لوگوں کی لاجواب“ سروس P.I.A شرمناک حد تک خسارے کی بنیادی وجوہات کیا ہیں....؟؟ وہ یہ بھی جانتے ہے کہ پاکستان کے ہوائی اڈوں پر محض اوورسیز پاکستانیوں سے ہی ”مک مکا“ کیوں کیا جاتا ہے۔ اس لئے وزیراعظم سے پھر یہ درخواست ہوگی کہ اوورسیز پاکستانیوں کیلئے وہ کسی بھی بڑے منصوبے کا اعلان کرنے سے قبل اس بات کو یقینی بنا لیں کہ ان کے ان اقدامات کا رزلٹ دیکھنا سمندر پار پاکستانیوں کی پہلی ترجیح ہوگی۔ اب کی بار O.P.F طرز کا طریقہ کار مسائل کا حل نہیں ہوگا کہ پاکستانی اب ”نئے پاکستان“ کے شہری بن چکے ہیں۔
اورسیز پاکستانیوں کی عمران خان سے توقعات
Sep 03, 2018