پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے امریکا اور طالبان کے درمیان جنگ بندی اور افغانستان سے انخلا کے معاہدے کی تصدیق کردی تاہم معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی توثیق تک حتمی تصور نہیں کیا جائے گا۔افغان خبر رساں ادارے کو دئیے گئے انٹرویو میں زلمے خلیل زاد نے کہا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کے اصولوں پر اتفاق ہوگیا ہے البتہ امریکی صدر کی توثیق تک یہ معاہدہ حتمی نہیں ہے۔طالبان اور امریکا کے درمیان 10 ماہ تک چلنے والے مذاکرات کے 9 دور ہوئے۔زلمے خلیل زاد نے بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط کے بعد معاہدے کے تحت امریکا افغانستان کے 5 فوجی اڈوں سے 135 روز کے اندر 5 ہزار فوجیوں کا انخلا کرے گا۔امریکی نمائندہ کا کہنا تھا کہ معاہدے کے پہلے مرحلے میں صوبے کابل اور پروان میں تشدد میں کمی واقع ہوگی۔خلیل زاد نے واضح کیا کہ اسلامی امارات کی جانب واپسی کا طالبان کی حکومت کیلئے جو لفظ استعمال کیا گیا اسے زبردستی قبول نہیں کیا جائے گا۔زلمے کا کہنا تھا کہ امریکا کبھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں امارت اسلامی کے نام سے دوبارہ کوئی نظام بنے اور کسی کو بھی یہ اجازت نہیں ہوگی کہ وہ زبردستی ایسا کوئی قدم اٹھائیں۔انہوں نے مزید کہا کہ صدر ٹرمپ اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ طالبان اور حکام کے درمیان کہاں اور قسم کی ڈیل کی جائے گی تاہم یک طرفہ خیالات کی زبردستی توثیق کی کوشش کی گئی تو نتیجہ جنگ ہوگا۔واضح رہے کہ رواں ماہ 22 اگست کو امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں مذاکرات کا نواں دور شروع ہوا جو وفود کی سطح پر یکم ستمبر تک جاری رہا۔افغانستان میں اس وقت چودہ ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جو امریکہ کی تاریخ کی سب سے طویل جنگ لڑ رہے ہیں۔