لندن: کشمیریوں کے حق میں ہزاروں افراد کا بھارتی ہائی کمیشن کے باہر احتجاج ،بھارتی ہائی کمیشن کی عمارت پر احتجاجاً انڈوں اور ٹماٹروں کی بوچھاڑ

لندن میں ایک مرتبہ پھر ہزاروں مظاہرین نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور لاک ڈاؤن کے خلاف بھارتی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرہ کیا اور احتجاجاً انڈوں اور ٹماٹروں کی بوچھاڑ کردی۔

احتجاج کے دوران متعدد مظاہرین ہاتھوں میں پاکستان اور آزاد کشمیر کا پرچم تھامے ہوئے تھے جبکہ کئی افراد نے پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے جن پر کشمیر کے حق میں نعرے درج تھے۔

واضح رہے کہ بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی جس کے بعد سے تاحال وادی میں کرفیو نافذ اور مواصلات کا نظام معطل ہے۔

لندن کے پارلیمنٹ اسکوائر پر 5 ہزار سے زائد مظاہرین جمع ہوئے اور انہوں نے وادی میں بھارتی فورسز کے ظلم و جبر کے خلاف بھارتی ہائی کمیشن کی طرف مارچ کیا۔

لندن میں کشمیری تنظیموں اور مقامی افراد کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے لیے سماجی کارکنوں اور حامیوں کو لندن میں جمع ہونے کی اپیل کی گئی تھی۔

کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے نکالی گئی ریلی میں مظاہرین نے مہاتما گاندھی کے مجسمے کو کشمیر کا جھنڈا بھی تھما دیا۔

لندن میں ہونے والے اس احتجاج میں کئی مظاہرین برطانیہ کے دیگر شہروں سے خصوصی چارٹرڈ بسوں کے ذریعے آئے تھے۔

مظاہرین نے ہاتھوں میں احتجاجی بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس پر بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف نعرے درج تھے۔

علاوہ ازیں بعض مظاہرین نے بھارتی ہائی کمیشن کی عمارت پر احتجاجاً انڈے اور ٹماٹر بھی برسائے۔

احتجاج میں کشمیری، پاکستانی، بھارتی، برطانوی اور دیگر قومیتوں کے افراد نے شرکت کی اور قافلوں کی صورت میں بھارتی ہائی کمیشن کی طرف مارچ کیا اور بھارت مخالف نعرے لگائے۔

اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری بھارتی ہائی کمیشن کے اطراف میں موجود تھی تاہم پولیس کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

مظاہرین نے بھارتی ہائی کمیشن پر دھواں چھوڑنے والے گولے بھی پھینکے۔

بعض مظاہرین نے لال روشنائی سے بھرے غبارے بھی بھارتی ہائی کمیشن پر پھینکے تاکہ تاثر دیا جائے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں کشمیریوں کا ’خون بہہ‘ رہا ہے۔

اس سے قبل لندن میں ہی 15 اگست کو ہزاروں افراد نے بھارتی ہائی کمیشن کے باہر احتجاج کیا تھا۔

لندن میں احتجاج کرنے والے مظاہرین نے 'کشمیر جل رہا ہے'، 'فری کشمیر' اور 'مودی: چائے کو جنگ نہیں بناؤ' کے نعروں کے بینرز اٹھا رکھے تھے۔

مذکورہ احتجاج میں تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری نے بھی شرکت کی تھی اور کہا تھا کہ 'میرے خیال سے یہ ریکارڈ توڑ ٹرن آؤٹ ہے اور یہ کشمیر کے لوگوں اور دیگر کے اس عزم کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ آپریشن اور ظلم کے خلاف ہیں'۔

واضح رہے کہ 28 اگست کو امریکا کے مزید کئی قانون سازوں نے بھارت پر مقبوضہ کشمیر سے فوری طور پر محاصرہ ختم کرنے پر زور دیا تھا جس سے امریکی کانگریس میں کشمیری عوام کے لیے دو طرفہ حمایت ظاہر ہوتی ہے۔

امریکی اراکین کانگریس کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا وہیں امریکی حکومت نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرنے میں جھجک سے کام نہیں لیا اور بھارت پر زور دیا تھا کہ وہ مواصلاتی رابطوں کو بحال کرے اور لوگوں کے بنیادی حقوق کا احترام کرتے ہوئے انہیں اکٹھا ہونے اور احتجاج کرنے کی اجازت دے۔

کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد وزیراعظم عمران خان متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ بھارتی حکومت کی پالیسی انتہا پسند آر ایس ایس کی پالیسی جیسی ہے جو خطہ ہمالیہ میں ہندو بالادستی قائم کرنے پر کام کر رہی ہے۔

انہوں نے بین الاقوامی برادری کو خبردار کیا تھا کہ بھارت پلوامہ جیسی جھوٹی کارروائی کرکے پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے، تاہم اگر ایسا ہوا تو اس کے اثرات پوری دنیا محسوس کرے گی۔

ای پیپر دی نیشن