سپہ سالار قمر جاوید باجوہ،شہباز شریف، چودھری سرور ،سراج الحق اور بھنگ کی اجازت کیوں؟

کراچی کی خاصیت یہ ہے کہ شہر قائد بیک وقت ملک کا سب سے اہم شہر بھی ہے اور لاوارث بھی ہے۔ اس کا کوئی وارث نہیں سب کراچی کا پھل کھاتے ہیں لیکن اس سایہ دار درخت کو سنبھالنے اور اس کی نشوونما پر کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ بالخصوص گذشتہ تین دہائیوں میں جو کچھ حکمرانوں نے بابائے قوم کے اس شہر کے ساتھ کیا ہے وہ ساری ترقی حالیہ بارشوں نے بے نقاب کر دی ہے۔ شہر قائد میں شروع کیے گئے وہ ترقیاتی منصوبے اور ہزاروں ارب روپے کے فنڈز کہاں خرچ ہوئے ہیں اس کی حقیقت بھی حالیہ بارشوں نے کھول کر بیان کر دی ہے اب بھی کوئی یہ سمجھتا  ہے کہ کراچی میں تین دہائیوں تک حکومت کرنے والوں نے کام کیا ہے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے یاد رکھیں کہ یہ سیاست دان پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور ان کا ہر ترقیاتی منصوبہ پہلے ان کے کاروبار، جائیدادوں، بینک بیلنس، خاندان اور قریبی دوستوں کو ترقی دیتا ہے اس کے بعد کہیں جا کر عوام کی باری آتی ہے۔ یہ حکمران طبقہ اتنا ظالم ہے کہ اس نے ابھی تک عوام کی باری آنے ہی نہیں دی۔ یہ دہائیوں سے اپنے کاروبار بڑھانے میں مصروف ہیں اور ملک کے معاشی مرکز کو کرپشن میں ڈبو دیا ہے۔ 
کراچی کی کمزور صورتحال کو دیکھتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی کراچی پہنچے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومتوں کے زیر تکمیل منصوبوں کو فوج کی مکمل مدد رہے گی۔ آرمی چیف کہتے ہیں کہ کراچی کا امن ملک کی سیکیورٹی اوراستحکام کے لیے نہایت اہم ہے۔ صوبے میں زندگی معمول پر لانیکی کوششیں جاری رہیں گی۔ ملک کے اقتصادی مرکز میں امن و امان پاکستان کی سلامتی و استحکام کیلیے ناگزیر ہے۔
کراچی کی بارشوں نے جہاں شہر قائد میں کرپشن کرپشن کی باریاں لینے والوں کو بے نقاب کیا ہے وہیں عوام کو بھی ایک واضح پیغام اور سبق دیا ہے کہ وہ کب تک ایسے حکمرانوں کی مدد کرتے رہیں گے اور کب تک ایسے افراد کو منتخب کر کے اسمبلیوں میں بھجواتے رہیں گے جو تین دہائیوں سے زائد عرصے میں بھی کراچی کے بنیادی مسائل حل نہیں کر سکے۔ آج کراچی کی پانی سے بھری سڑکیں اور بجلی سے محروم علاقے چیخ چیخ کر یہ بتا رہے ہیں کہ کم از کم پینتیس سال اس شہر پر حکومت کرنے والوں نے بنیادی ڈھانچے کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ ملک کی تمام اہم شخصیات کراچی میں موجود ہوں سب کا ایک ہی مقصد ہو، سب مسائل سے واقف ہوں، وسائل بھی موجود ہوں پھر بھی مسائل حل نہ ہوں تو سمجھ آتی ہے کہ اصل مسئلہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ ترجیحات کا تعین ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے۔ آرمی چیف کہتے ہیں کہ مسئلہ وسائل کی دستیابی نہیں بلکہ ترجیحات کو درست کرنے کا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات بھی نہیں ہے لیکن حالیہ بارشوں سے ہونے والی تباہی نے حقیقت واضح کر دی ہے کہ سیاست دانوں کی ترجیحات میں مسائل کا حل شامل نہیں بلکہ ان کی ترجیحات وسائل کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرنا ہے۔ وفاق صرف کراچی ہی نہیں بلکہ لاہور، پشاور، کوئٹہ، ملتان اور فیصل آباد کو بھی اپنے کنٹرول میں لے اور ان تمام شہروں کو جدید شہر بنانے کے منصوبے پر کام کرے۔ کراچی کی تباہی جمہوری نظام کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ سیاست دانوں کی غلطیوں کی سزا عوام کو مل رہی ہے وقت آ گیا ہے کہ اس حوالے سے دلیرانہ اور غیر معمولی فیصلے کیے جائیں۔ ایماندار، قابل اور مخلص افراد کو ذمہ داریاں دی جائیں۔ صرف کراچی ہی نہیں پورے ملک کو نالائق سیاست دانوں کے چنگل سے نکالا جائے۔ عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے متبادل نظام حکومت پر کام کیا جائے۔ سیاست دانوں کی مناسب تربیت تک ملک میں صدارتی نظام نافذ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے اگر عوام کو مصائب سے بچانا اور ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالنا ہے تو پھر متبادل نظام حکومت پر بھی کام کرنا ہو گا ورنہ یہ سیاست دان اپنی دکانداری، کاروبار، جائیداد اور ذاتی مفادات کے کھیل میں عوام کا سانس لینا بھی مشکل کر دیں گے۔
ابھی ہم سیاست دانوں کے رویے پر لکھ رہے ہیں تو سن لیجئے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے کراچی پہنچ کر کیا کہا ہے میاں شہباز شریف فرماتے ہیں کہ وفاقی حکومت وعدے کے مطابق کراچی کو فنڈز جاری کرتی سیاست نہ کرتی تو شہر قائد کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ میاں شہباز شریف ملک ہے سب سے بڑے صوبے کے کئی مرتبہ وزیر اعلیٰ رہے ہیں سیاست تو وہ کراچی پہنچ کر اور یہ بیان دے کر کر رہے ہیں میاں صاحب آپ کراچی میں جن سے مل رہے ہیں ان سے پوچھیے کہ ان کی سیاست اور حکومت نے کراچی کو مسائل سے نکالنے اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔ آپ آصف علی زرداری سے ضرور پوچھیں کہ ان کی سیاست اور حکومت سے کراچی کو کیا فائدہ پہنچا ہے آپ ایم کیو ایم سے پوچھیں کہ کراچی کے نام پر جاری ہونے والے فنڈز کہاں گئے۔ کیا کراچی کا یہ حال گذشتہ دوبرس میں ہوا ہے یقیناً ایسا نہیں ہے یہ سب کیا دھرا ان کا ہے جو اپوزیشن بنچوں پر آپ کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں اور کراچی پر دہائیوں سے ان کی حکومت ہے۔ وفاقی حکومت نے بھی غلطیاں کی ہوں گی لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ تینتیس برس مسلسل غلطیاں کرنے والوں کے ساتھ بیٹھ کر میاں صاحب محض دو سال حکومت کرنے والوں کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ سیاست ضرور کریں لیکن قومی معاملات میں سیاست سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔ جس جس نے کراچی پر حکومت کی ہے اسے کٹہرے میں لائیں اور پوچھیں کہ فنڈز کہاں اور کیسے خرچ ہوئے۔ ماضی میں وہ آصف علی زرداری کا پیٹ پھاڑ کر ملک و قوم کی لوٹی ہوئی دولت نکالنے کے نعرے لگاتے اور دعوے کرتے تھے نہ پیٹ پھاڑ سکے نہ لوٹی ہوئی دولت واپس لا سکے البتہ پیپلز پارٹی کو خوش کرنے آصف زرداری کی دست بوسی کے لیے ضرور حاضر ہو گئے ہیں۔ سیاست کا کھیل کیسے کیسے رنگ بدلتا ہے۔ ممکن ہو تو میاں شہباز شریف اپنے کارکنان کو یہ بھی بتا دیں کہ ابھی آصف علی زرداری کی صحت اجازت نہیں دیتی کہ پیٹ پھاڑا جائے جونہی صحت بحال ہو گی اس منصوبے پر دوبارہ کام کرنے کی کوشش کی جائے گی بالکل ویسے ہی جیسے میاں نواز شریف کی صحت وطن واپسی کی اجازت نہیں دیتی سو ان دونوں اہم کاموں کے لیے مناسب صحت کا ہونا ضروری ہے۔
 وفاقی وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی فواد چودھری کہتے ہیں کہ حکومت نے خود بھنگ کاشت کرنے کا فیصلہ کیا ہے انہوں نے جو فضائل بھنگ بھی بیان فرمائے ہیں انہیں پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ نجانے ہم کیوں اب تک اس نعمت سے محروم رہے ہیں۔ ان فضائل کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ماضی کے حکمرانوں نے بھنگ کی سرکاری سطح پر کاشت نہ کر کے ملک و قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اللہ کرے فواد چودھری اس نقصان کا ازالہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور ہم بھنگ کی کاشت کے حوالے سے تمام اہداف بھی حاصل کریں چلیں اس طرح بیرونی دنیا میں کم از کم ہماری ایک اور شناخت بنے گی کہ ہم اس ملک سے ہیں جہاں بہترین بھنگ کاشت کی جاتی ہے۔ ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
حکومت بھنگ کاشت کرے لیکن یہ خیال بھی رکھے کہ یہاں تو کام کرنے کی رفتار پہلے ہی نہایت سست ہے بالخصوص سرکاری دفاتر میں تو بھنگ کے بغیر بھی ماحول بھنگ آلود ہے اگر اپنی عوام ہی بھنگ پر لگ گئی تو سوچیں کیا حال ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ ہر طرف بھنگی ہی بھنگی ہوں بھنگ کاشت کرتے کرتے پورا ملک ہی بھنگیوں سے نہ بھر جائے۔ پوٹھوہار والوں کو مبارک بادممکن ہے ان کا علاقہ بہت جلد دنیا کے نقشے پر بہترین بھنگ کی کاشت کے حوالے سے نمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے۔ حکومت تو بھنگ پلس بھی کاشت کرنا چاہے تو کر سکتی ہے آپ نے سنا ہو گا جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ دیکھتے ہیں اس منصوبے کا کیا بنتا ہے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کہتے ہیں کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی کارکردگی سے کوئی بھی مطمئن نہیں بارشوں نے کراچی سمیت ملک بھر کے انفراسٹرکچر کا پول کھول دیا ہے۔ سراج الحق کے خیالات سے اتفاق کیا جا سکتا ہے ہر درد مند پاکستانی کی یہی آواز ہے صرف این ڈی ایم اے ہی نہیں تمام صوبائی اسمبلیاں، قومی اسمبلی اور سینیٹ بھی بے معنی ہو چکی ہے کہیں سے عوام کے لیے کچھ نظر نہیں آتا لیکن سراج الحق کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا صرف مذمتی یا تعریفی بیانات یا یوم تاسیس منا لینے سے ذمہ داریاں پوری ہو جاتی ہیں۔ کیا جماعت اسلامی اپنا سیاسی کردار بہتر انداز میں نبھا رہی ہے ایک وقت تھا جماعت اسلامی ملک کی بڑی سیاسی طاقت سمجھی جاتی تھی ہر گھر میں جماعت اسلامی کا ووٹ ہوتا تھا لیکن آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ سراج الحق کی شرافت کے ہم معترف ہیں عوام کی دیانت کی قائم ہے لیکن کیا یہ وقت گھر بیٹھے رہنے کا ہے۔ کیا ہم تاریخ میں صرف بیانات جاری کرنے والے امیر کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہیں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی چلے گئے، مولانا طفیل چلے گئے، قاضی حسین احمد چلے گئے، سید منور حسن بھی چلے گئے ہم سب نے چلے جانا ہے لیکن یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ تاریخ ہمیں کیسے یاد رکھے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق باہر نکلیں ملکی خدمت کا جذبہ رکھنے، ملک کے خوش کن تاثر، روشن خیال چہرے کو تھام کر اللہ کے احکامات اور نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرتے ہوئے ملک و قوم کی تعمیر کا جذبہ رکھنے والی مذہبی سیاسی جماعتوں کو متحد و یکجا کریں ان کی قیادت کریں۔ تاریخ میں بہادر زندہ رہتے ہیں بہادر ہی ہواؤں کا رخ بدلتے ہیں اور بہادر ہی حالات اور تقدیر بدلتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق جذبہ ایمانی سے سرشار ہیں وہ باہر نکلیں گے تو قوم انہیں خوش آمدید کہے گی صرف واضح پالیسی، دوٹوک موقف اپنانے اور یکسوئی کے ساتھ آگے بڑھنے کی منتظر ہے۔ امید ہے سراج الحق قوم کو مایوس نہیں کریں گے وہ جماعت اسلامی کو دوبارہ مولانا سید ابوالاعلی مودودی اور قاضی حسین احمد والی جماعت بنائیں گے وہ جماعت اسلامی کہ جب احتجاج کا فیصلہ کرے تو حکومتوں کے درودیوار ہل کر رہ جائیں۔ تخت ہیبت سے کانپنے لگیں اور حکمرانوں کو اپنا اقتدار ختم ہوتا نظر آنے لگے۔
گورنر پنجاب چودھری محمد سرور سندھ گئے ہیں انہوں نے وہاں کسی سیاسی جماعت نہیں بلکہ پاکستان کی نمائندگی کی ہے وہ ایک درد مند پاکستانی پہلے اور پاکستان تحریک انصاف کے گورنر پنجاب بعد میں ہیں وہ مصیبت میں گھرے اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے گئے ہیں یہ جذبہ لائق تحسین ہے انہوں نے ذاتی حیثیت میں سرور فاؤنڈیشن کے فنڈز بھی اپنے بھائیوں کی خدمت میں پیش کیے ہیں ہم سب کو ایسے ہی خدمت کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے ہمیں سب سے پہلے پاکستانی بن کر سوچنا چاہیے۔ چودھری محمد سرور کی فاؤنڈیشن کورونا کے دنوں میں بھی بہت متحرک رہی اور متاثرین کی مدد کرتی رہی۔ مشکل وقت میں بیان بازی اور بالخصوص منفی و سیاسی بیان بازی کے بجائے عملی اقدامات اور محبت کو عام کرنا چاہیے محبتیں پھیلانے میں چودھری محمد سرور ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...