کراچی (قمر خان+ نیوز رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ) مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی ملاقات میں میثاق جمہوریت کی تجدید کرتے ہوئے آج ہونے والے رہبر کمیٹی کے اجلاس میں شرکت اور اس میں آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کی تاریخ مقرر کرنے پر اتفاق ہوگیا۔ قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ شہباز شریف اور سابق صدر آصف زرداری کے مابین اہم ملاقات میں ملکی سیاست سے متعلق اہم امور پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیوں اور نیب کے یکطرفہ احتساب کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپوزیشن الائنس کو متحرک کرنے اور پارلیمنٹ میں ہمخیال جماعتوں سے رابطے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ شہباز شریف مرکزی سیکرٹری جنرل احسن اقبال و دیگر رہنماؤں کے ہمراہ سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کی عیادت کرنے بلاول ہاؤس پہنچے تو خود آصف علی زرداری نے ان کا استقبال کیا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ، سید نوید قمر، فرحت اللہ بابر، پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کے احسن اقبال، مفتاح اسماعیل، مریم اورنگزیب‘ محمد زبیر بھی موجود تھے۔ شہباز شریف نے زرداری کو نواز شریف کا پیغام پہنچایا۔ ملاقات میں مجوزہ تحریک اور اس کے مضمرات پر غور کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا گیا کہ اب خاموش رہنے اور مصلحت کا شکار ہونے کا وقت نہیں رہا۔ آج رہبر کمیٹی کے اجلاس میں نہ صرف شرکت کی جائے گی بلکہ آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے ذریعے نااہل حکمرانوں سے نجات کیلئے جدوجہد کا آغاز کیا جائے گا۔ ملاقات کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ احسن اقبال نے کہا کہ ملک کو درپیش سیاسی، معاشی اور گورننس کے چیلنجز کا جواب یہی ہے کہ ہم اپوزیشن کے اشتراک عمل کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کریں اور اس حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے تمام جمہوری اور آئینی آپشنز کو بروئے کار لائیں جن سے ملک اس نقصان، تباہی اور آزمائش سے نکل سکے جو اس حکومت کی ناتجربہ کاری، نااہلی اور ناکامی سے پوری قوم کے لیے ایک عذاب بن چکی ہے۔ دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت کے اصولوں کی تجدید کی ہے۔ میثاق جمہوریت کے اصولوں کے تحت جدوجہد میں ہمارے اختلافات رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ اس حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے تمام آپشنز کو بروئے کار لانا ہے۔ پاکستان میں صدارتی نظام کوئی نیا تجربہ نہیں۔ اب پاکستان میں تجربوں کی ضرورت نہیں۔ 1973 کے آئین میں تحریر ہے کہ پاکستان کا سیاسی نظام پارلیمانی ہوگا۔ یحییٰ خان، ضیاء الحق، مشرف کا دور صدارتی تھا۔ صدارتی نظام نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا۔ ملک کامیاب کرنا ہے تو 1973 ء کے آئین پر آنکھیں بند کرکے عمل کیا جائے۔ شہباز شریف نے میڈیا میں تجویز پیش کی کہ ان تباہ کاریوں کے نتیجے میں ضروری ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر ایک خطیر امدادی پیکج کا اعلان کرے تاکہ جن لوگوں کا نقصان ہوا ہے وہ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح زرعی شعبے میں کسانوں اور فصلوں کا جو نقصان ہوا ہے ان کو بھی نقصان کا معاوضہ دینے کے لیے وفاق صوبائی حکومت کی مدد کرے تاکہ ایسا امدادی پیکج ہو جو غریب کسانوں کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کر سکے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ ہم حکومت سندھ، سندھ اور کراچی کے عوام کو یہ یقین دلانے آئے ہیں کہ پورا ملک ان کے اس دکھ کی گھڑی میں ان کی اس تکلیف میں شریک ہیں اور ہم قومی سطح پر یہاں کی تعمیرنو کی کوششوں کو تیز کرنے کے لیے اپنی آواز بھرپور طریقے سے اٹھائیں گے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پارلیمانی نظام کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی تو نتیجہ بھیانک ہوگا، صدارتی نظام لانے کی باتیں بھی ہورہی ہیں، ملک میں یک طرفہ احتساب ہورہا ہے، لاپتا افراد کا مسئلہ دن بہ دن سنگین ہوتا جارہا ہے، لاپتا افراد کوفوری بازیاب کرایا جائے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ہم ایف اے ٹی ایف قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہیں۔ نوید قمر نے کہا کہ ہم شہباز شریف اور مسلم لیگ ن کے رفقا کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو مشکل وقت میں ہمارے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے کراچی تشریف لائے۔ یہ مسلم لیگ کا ناصرف پیپلز پارٹی بلکہ سندھ کے لوگوں کے لیے مثبت قدم ہے کیونکہ یہ ایک ایسا موقع ہے کہ ایک دوسرے پر نکتہ چینی اور نیچا دکھانے کے بجائے پورے ملک کو لوگوں کی تکالیف کو سامنے رکھ کر اس کا حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ قبل ازیں کراچی آمد پر شہبازشریف نے کہا کہ سیاست نہ کی گئی ہوتی تو آج سندھ اور کراچی کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، وفاق بتائے سندھ کیلئے اربوں روپے کے فنڈز کہاں ہیں، کراچی کی روشنیوں کو کسی صورت مدہم نہیں ہونے دینگے، کراچی میں سیلاب سے تباہ کاریاں ہوئی ہیں، امیر غریب سیلاب کی تباہ کاریوں سے پریشان ہیں، شہر قائد میں بھرپور طریقے سے ترقیاتی کام ہونے چاہئیں، کراچی کو ابھی تک جتنا بنایا ہے مسلم لیگ (ن) نے بنایا ہے، حکومت کے جو سکینڈل ہیں ان کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔ شہباز شریف بارش سے متاثرہ یار محمد گوٹھ پہنچے، جہاں انہوں نے بارش سے متاثرہ افراد سے ملاقات کی۔ بعدازاں وہ صائمہ سکوائر گلستان جوہر گئے، جہاں انہوں نے بارشوں کے دوران دیوار گرنے سے جاں بحق خواتین وبچوں کے اہلخانہ سے تعزیت اور فاتحہ خوانی کی۔ میڈیا سے گفتگو میں شہبازشریف نے کہاکہ میں اہلیان کراچی اور اندرون سندھ کے بہن بھائیوں سے تعزیت کیلئے آیا ہوں، پورے پاکستان کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں، پورا پاکستان کراچی کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ سیاست کا نہیں بلکہ کراچی کی ترقی کیلئے کام کرنے کا وقت ہے۔ وزیراعظم کراچی آکر سندھ حکومت کیساتھ بیٹھیں کیوں کہ یہ وقت سیاست کا نہیں، مسائل کے حل کرنے کا ہے۔ ملک کو مشکل حالات کا سامنا ہے اس لیے سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ وفاقی حکومت کو سندھ حکومت کی مشاورت سے امدادی کارروائیاں شروع کرنی چاہئیں۔ 162 ارب روپے کا وفاق نے اعلان کیا لیکن ایک دھیلا بھی نہیں دیا۔ عمران نیازی صاحب اس وقت سیاست نہ کریں، یہ سیاست کا نہیں کام کا وقت ہے۔ انہوں نے خود ایک ٹویٹ میں کہا کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو اس شہر کی بہتری کیلئے مل بیٹھ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاست دوسرے دن کا انتظار کر سکتی ہے۔ شہباز شریف نے فیصل ایدھی سے بھی ملاقات کی۔ شہباز شریف نے ناظم آباد کراچی میں جلسے سے خطاب میں کہا کہ وزیراعظم عمران خان کو توفیق نہیں ہوئی کہ کراچی آئیں۔ ن لیگ کی حکومت ہوتی تو نواز شریف پہلی فرصت میں کراچی پہنچتے۔ وعدہ کیا تھا کہ حکومت ملی تو چھ ماہ میں گندگی کے ڈھیر ختم کرا دوں گا۔ میں نے کہا کہ موقع ملا تو کراچی کو لاہور نہیں بلکہ پیرس بنا دوں گا۔ موقع ملنے پر کراچی کو تین سال میں پیرس نہ بنایا تو میرا نام بدل دینا۔ کراچی والے امید لگائے بیٹھے ہیں کب اسلام آباد سے حکمران آئیں۔ عمران خان نے بڑے وعدے کئے لیکن کراچی کو ایک دھیلا نہیں دیا۔ عمران خان کراچی آؤ متاثرین کو امداد دو۔