یادش بخیر

 اس سیاسی کشمکش سے ملک کو نجات دلانے میں آرمی چیف جنرل وحید نے آئینی طریقہ کار اپنایا۔ چیئرمین سینٹ وسیم سجاد نے قائمقام صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔ معین قریشی کو بیرون ملک سے درآمد کیاگیا تاکہ وہ آزادانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کو یقینی بنائیں نگران کابینہ نے ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ جنرل کاکڑ نے 90 دن کی متعین آئینی مدت کے اندر انتخابات کرادئیے۔ دلچسپ امر یہ تھا کہ جنرل وحید کاکڑ کے ‘‘ماورائے آئین’’ اقدامات کو کسی شخص نے عدالت میں چیلنج نہیں کیا۔ وہ اس لحاظ سے منفرد شخص ہیں کہ انہوں نے ان واقعات کے حوالے سے کوئی لب کشائی کی اور نہ ہی انٹرویوز کی زینت بنے۔ انہیں عوام اور فوج دونوں میں یکساں احترام ملا۔ انہوں نے سیاسی افراتفری کا فائدہ اٹھاکر مارشل لاء لگایا نہ ہی فوج کو کسی سنگین تنازعے میں ملوث ہونے دیا۔ نہایت دانائی سے صورتحال سے ملک کو بہتری کی طرف نکال لے گئے۔ جنرل وحید کاکڑ نے اپنے پیش رو جرنیلوں سے ہٹ کر کیوں رویہ اپنایا؟ اس پر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاستدان نے نہایت دلچسپ تبصرہ کیا۔ ان کے مطابق جنرل کاکڑ ’سینڈھرسٹ‘ سے فارغ التحصیل جنرل نہیں جو نوآبادتی ذہن کی تربیت گاہ تھی۔ لورالائی کے پہاڑی سلسلے کا یہ ذہین اور روشن خیال شخص الگ تھا۔ اس نے بری فوج کی جنگ لڑنے اور پیشہ وارانہ اہلیت کو مزید سنوارا، مزید مضبوط اور طاقتور بنایا۔ سب سے بڑھ ان کی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے سیاست کو سمجھا اور سیاسی عمل کو آگے بڑھایا۔ کہاجاتا ہے کہ 2010ء سے پہلے ہمارے بہت سارے جنرل آفیسر ایسے تھے جنہوں نے 1965ء یا 1971ء کی جنگوں یا بلوچستان میں بدامنی کے خلاف آپریشن میں عملا حصہ نہیں لیاتھا۔ لیکن آج ہماری تمام سینئر فوجی قیادت نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بدامنی کے انسداد کے لئے ہونے والی کارروائیوں میں کسی نہ کسی درجے میں حصہ لے رکھا ہے۔ جنرل وحید کاکڑ نے 5 ایف ایف رائیفل کمپنی کے کماندار کے طورپر 1965ء میں سیالکوٹ کے مشہور چونڈہ کے محاذ پر حصہ لیاتھا۔ 1971ء کی جنگ میں سلیمانکی کے محاذ پر وحید کاکڑ بریگیڈ میجر کے طورپر بروئے کار آئے۔ اس طرح ان دونوں بڑوں معرکوں میں انہوں نے بھرپور حصہ لیاتھا۔
 انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلزپارٹی اقتدار میں آگئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شفاف انتخابات کرانے پر جنرل وحید کاکڑ کا بے حد احترام کرتی تھیں اور اکثر ان سے مشورے لیتیں۔ ستمبر1995ء میں جنرل وحیدکاکڑ نے جمہوریت کے لئے ایک مرتبہ پھر اس وقت اہم کردار ادا کیاتھا جب ایک عسکری گروہ نے بے نظیر کو قتل کرکے اقتدار پر قبضے کا منصوبہ بنایا۔ یہ سازش آئی ایس آئی اور ایم آئی نے ناکام بنادی۔ 
1996 ء میں بری فوج کے سربراہ کے طورپر مدت ملازمت پوری ہوئی تو وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور اس وقت کے صدر فاروق لغاری نے جنرل وحید کاکڑ کو مزید تین سال عہدے پر کام جاری رکھنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانے۔ انکار کے فیصلے سے قبل انہوں نے کورکمانڈرز سے بھی رائے مانگی تو ان میں سے اکثریت نے مدت ملازمت میں توسیع قبول کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کے دو ساتھیوں کی رائے مختلف تھی۔ ان کا مشورہ تھا کہ آپ یہ توسیع نہ لیں۔ جنرل وحید کاکڑ نے اپنے ان دو ساتھیوں کی رائے پر عمل کیا۔ وہ راولپنڈی میں خاموش زندگی گزارتے ہیں۔ کبھی کبھار کہیں ان کی جھلک دکھائی دے جاتی ہے۔ جنرل کاکڑ ایک ایسی شاندار مثال کے طورپر آج بھی یاد کئے جاتے ہیں جنہوں نے تمام مواقع اور پیشکش کے باوجود اپنے عہدے کا ذات کے لئے فائدہ لینے سے انکار کیا۔ وہ ایک شاندار فوجی، بہترین جرنیل ایک محب وطن پاکستانی کے طورپر آج بھی نہایت احترام پاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے طرز عمل سے وہ لکیر بھی کھینچ دی کہ آپ کے قدم کہاں رْک جانے چاہئیں۔ وطن کے سپاہی کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ہوا کرتا۔ (ختم شد) 

ای پیپر دی نیشن