پاکستان میں بہت ہی قومی مسائل ہیں جن کی اپنی جگہ اہمیت ہے۔ میرے نزدیک ہمارا سب سے بڑا مسٔلہ طبقاتی نظامِ تعلیم ہے جس نے قوم کو غریب اور امیر دو واضح طبقات میں تقسیم کر دیا۔ اس وجہ سے غریب اور غریب اور امیر اور امیر ہوتا گیا۔ سرکاری ملازمتوں، اہم عہدوں سے لے کر قومی و صوبائی اسمبلی میں منتخب ہونے والے نمائندگان تک وہی لوگ منتخب ہوتے رہے جو انگلش میڈیم سے پڑھ کر آئے۔ یہ امیر طبقہ نسل در نسل اعلیٰ عہدوں اور حکمرانی میں صفِ اول میں رہا۔ غریب اور متوسط طبقہ جو سرکاری اور عام روایتی سکولوں میں پڑھا وہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ اس طبقاتی نظام تعلیم سے حکمران طبقہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے والے لوگوں کو نہ عزت کا احساس ہے اور نہ ہی غریب کی مشکلات کا ادراک ہے۔ یہ خوشحال طبقہ قیامِ پاکستان سے اب تک ملک کے اہم اداروں اور ایوانوں میں بیٹھا ہے۔ انہیں قومی مسائل، حب الوطنی یا عام شہریوں کی مشکلات کا قطعاً احساس نہیں۔ انہوں نے مہنگے اور اعلیٰ ترین انگلش میڈیم تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی جہاں بھاری فیسیں لی جاتی ہیں۔ ابتدائی کلاسوں سے ہی انہوں نے انگریزی زبان پر عبور حاصل کر لیا۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں روایتی نظام تعلیم ہے جہاں بچوں کی انگریزی سیکھنے کی استعداد کم ہے ا ور ہر شعبے اور محکمے کے لئے انگریزی میں لائق ہونا ، مہارت حاصل ہونا بنیادی معیار ہے۔74سال گزرنے کے باوجود اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے باوجود ہم قومی زبان اردو کو سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں میں اہمیت نہ دے سکے۔ طبقاتی تقسیم نے ہمیں مسائل و مشکلات کی دلدل میں پھنسا دیا۔ اب اس سے چھٹکارا حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ہمارے 90فیصد مسائل کا تعلق اور بنیادی وجہ ہمارا ناقص اور طبقاتی نظامِ تعلیم ہے۔ ڈگریوں اور اسناد کی شکل میں ہم نے تعلیمی میدان میں بہت ترقی کرلی مگر اخلاقی اقدار میں ہم زمانہ جاہلیت کی طرف تیزی سے گامزن ہیں۔ معاشرتی جرائم، اخلاقی و جنسی بے راہ روی میں ہم نے پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کی بنیادی وجہ بھی ہمارا ناقص نظامِ تعلیم ہے چونکہ ادنیٰ سے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہم سبق یاد کرانے کے علاوہ نوجواان نسل کی کوئی اخلاقی تربیت نہیں کر رہے۔ اس وقت ایسی گھمبیر اور پیچیدہ صورت حال میں پہنچ چکے ہیں کہ تعلیم سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہے۔ آئے روز کے حادثات و واقعات جس میں اخلاقی اور جنسی بے راہ روی کی انتہا ہے یہ محض تربیت کی کمی کے باعث ہے۔ اس وقت ہمارا تین طرح کا نظامِ تعلیم ہے۔ ایک عام سرکاری اردو میڈیم سکول جن میں تین کروڑ سے زیادہ طلباء و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ دوسرا انگلش میڈیم نظام اس میں 8لاکھ اور تیسرا دینی مدارس کا نظامِ تعلیم جس میں 25لاکھ طلباء و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔ طبقاتی نظامِ تعلیم کو جاری رکھنے کے پیچھے سرمایہ دارانہ سوچ ہے۔ یہی لوگ گزشتہ 74سالوں سے رکاوٹ ہیں۔ آئندہ بھی یہ طبقہ یکساں نظامِ تعلیم کو رائج نہیں ہونے دے گا۔ تینوں قسم کے نظامِ تعلیم کا نصاب علیحدہ ہے۔ 1960ء کی دہائی میں انگلش میڈیم سکول سسٹم کا پہلا سیلاب آیا اور پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ انگلش میڈیم کے فارغ ہونے والے طلباء و طالبات میں اخلاقی پستگی نسبتاً زیادہ ہے۔ مذہب سے دوری، اخلاقی معیار میں پستگی اور غربت کا احساس نہ ہونا اس انگلش میڈیم نظام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ 1973ء کے دستور میں 18ویں ترمیم میں کچھ غلط فیصلے ہوئے۔ نصاب تعلیم کے حوالے سے اختیارات وفاق کے بجائے صوبوں کو مل گئے۔ یہ ایک غلط فیصلہ ہوا۔ آج جب وفاقی حکومت نے مرحلہ وار یکساں نصابِ تعلیم کا فیصلہ کیا تو صوبہ سندھ نے اس پر عمل کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اب وفاق بے بس ہے چونکہ 18ویں ترمیم میں کسی بھی صوبے کا حق ہے سندھ والوں سے کیسے عمل کرائیں گے؟ 18ویں ترمیم عجلت میں اور مخصوص مقاصد کی خاطر ہوئی۔ اس سے ہمارے مسائل میں اضافہ ہوا۔ قومی فیصلہ سوچ سمجھ کر اور دانشمندی سے کئے جائیں۔ پی ٹی آئی والوں نے 2018ء کے الیکشن میں یکساں نصابِ تعلیم رائج کرنے کا وعدہ کیا تھا اسے انتخابی منشور کا حصہ بنایا تھا۔ خوشی کی بات ہے کہ عمران خان نے یکساں نصابِ تعلیم کے حوالے سے کچھ عملی قدم اٹھایا ہے۔ وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود نے 16اگست 2021ء سے ملک میں پہلی سے پانچویں جماعت تک یکساں نصابِ تعلیم کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ پاکستان میں پہلی بار ہوا ہے۔ اگر اور کچھ نہ ہوا تو اس فیصلے سے طبقاتی نظامِ تعلیم کی کچھ حوصلہ شکنی ضرور ہوگی۔ فیصلے کے مطابق پہلے مرحلے میں تعلیمی سال 2021-22پہلی سے پانچویں تک دوسرے مرحلے میں 2022-23 میں چھٹی سے آٹھویں تک اور تیسرے مرحلے میں تعلیمی سال 2023-24میں نویں سے بارہویں کلاس کے لئے یکساں نصابِ تعلیم ہوگا نافذ ہوگا۔ نئے نصابِ تعلیم میں قرآن پاک، سیرت النبیؐ قومی ھیرو قائداعظم، علامہ اقبال وغیرہ کے حالاتِ زندگی، اسلامی، مشرقی روایات، کلچر کو نصاب کا حصہ بنایا جائے گا۔ اس حوالے سے دنیا کے کچھ ممالک کے نصابِ تعلیم سے بھی رہنمائی حاصل کی گئی ہے۔ نئے نصاب میں انگریزی کو بطور زبان شامل کیا جائے گا۔اس حوالے سے اتحاد تنظیم وفاق المدارس کو بھی مشاورت میں شامل کیا گیا ہے۔ حکومت کے اس فیصلے پر بے حد خوشی ہوئی اللہ کرے کہ اس پر مکمل طور پر عمل ہو۔26اگست خان صاحب نے اپنی حکومت کے تین سال مکمل ہونے پر اسلام آباد میں حکومتی اہم کارنامے اجاگر کرنے کے حوالے سے ایک پروقار تریب منعقد کی۔ اس تقریب میں میرے نزدیک یکساں نصابِ تعلیم واحد اچھے فیصلے کو ہم کارنامہ گن سکتے ہیں۔