معزز قارئین !مَیںنے 23 جنوری 2013ء کے ’’ نوائے وقت‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے ہر اِنسان کا دوسرے اِنسانوں سے ملاقاتوں کا "Quata" (مقررہ حصّہ ) مخصوص کِیا ہے کہ ’’ اُسکی کب ؟ کہاں؟ اور کتنی دیر تک ، فلاں فلاں اِنسان سے ملاقات ہوگی؟‘‘
پرانے دَور میں خط و کتابت کو ’’ آدھی ملاقات‘‘ کہا جاتا تھالیکن ’’Telephone۔ VidoeLink‘‘ اور "Skype"کی ایجاد کے بعد تو، ہماری ہر کسی سے پوری ملاقات ہو جاتی ہے ۔28 اگست کو عزیز گرامی چیئرمین پیمرا پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ اسلام آباد سے لاہور ؔآئے اور مجھے اپنے ساتھ نامور صحافی ، برادرِ عزیز و محترم جمیل اطہر قاضی کے دفترروزنامہ ’’ جرأت‘‘ لے گئے ، بیگ صاحب کی دعوت پر اُردو، پنجابی کے نامور شاعر ، کئی کتابوں کے مصنف ، روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن برادرِ عزیز سعید آسیؔ اور اُن کے فرزند سلمان سعید بھی وہاں موجود تھے ۔ جمیل صاحب اور اُن کے تینوں صاحبزادوں ، عرفان اطہر قاضی، عمران اطہر قاضی اور ریحان اطہر قاضی نے ہمارا محبت سے استقبال کِیا۔ تحریک پاکستان کے دَوران ہندوئوں کی دہشت گرد تنظیم ’’ راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ ‘‘ (R.S.S.S) ، متعصب ہندو جماعت ’’ انڈین نیشنل کانگریس‘‘ سکھوں کے مسلح جتھوں اور دوسری غیر مسلم تنظیموں نے مختلف صوبوں میں 18 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام کِیا اور 95 ہزار سے زیادہ مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے اُن کی آبرو ریزی کی ۔ مشرقی ( اب بھارتی ) پنجاب میں سِکھوں نے 10 لاکھ مسلمانوں کو شہید کِیا اور 55 ہزار مسلمان عورتوں کو اغواء کر کے اُن کی عصمت ریزی کی۔
معزز قارئین ! مشرقی ( اب بھارتی ) پنجاب کی سِکھ ریاست نابھہ ؔ میں میرے والد صاحب ، تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان لٹھ باز تھے اور وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے (Muslim National Guards) کو لٹھ بازی سِکھایا کرتے تھے ۔ ریاست نابھہ ؔ ، پٹیالہ ؔ اور ضلع امرتسرؔ میں ہمار ے خاندان کے 26 افراد سِکھوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہوگئے تھے ۔ چیئرمین پیمرا کے والد ِ مرحوم ، مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسریؔ نے مجھے بتایا تھا کہ ’’ امرتسرؔ میں ہمارا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوگیا تھا!‘‘۔ریاست پٹیالہؔ میں درگاہِ حضرت مجد د الف ثانی سرہند شریف کے خادموں میں سے تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن قاضی ظہور اُلدّین (مرحوم ) جمیل اطہر قاضی صاحب کے حقیقی چچا تھے ۔ یوں تو مجھے بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان کے مختلف صوبوں میں آباد تمام مہاجرین سے محبت رہی ہے لیکن ریاست نابھہ ؔ ، پٹیالہؔ اور ضلع امرتسرؔ کے مہاجروں سے بہت زیادہ !۔
’’ میاں محمد اکرم طور ؒ ! ‘‘
پاکپتن شریف میں تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن ، میاں محمد اکرم طورؔ (برادرِ عزیز سعید آسیؔ کے والد مرحوم) نے مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کِیا تھا۔ 2 جنوری 1985ء کے صدارتی انتخاب میں صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ( صدر پاکستان کنونشن مسلم لیگ ) کے مقابلے میں قائداعظم کی ہمشیرہ ، محترمہ فاطمہ جناح، متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں جنہیں ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جناب مجید نظامی نے ’’ مادرِ ملّت‘‘ کا خطاب دِیا تھا۔
’’ مادرِ ملّت سے ملاقات! ‘‘
صدارتی انتخاب سے کچھ دِن پہلے ضلع سرگودھا میں مادرِ ملّت کی انتخابی مہم کے انچارج ،تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن ،قاضی مُرید احمد (مرحوم) مجھے اور میرے صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقتؔ امرتسری کو، مادرِ ملّت سے ملاقات کیلئے لاہور لائے تھے ، مادرِ ملّت کونسل مسلم لیگ کے ایک لیڈر میاں منظر ؔبشیر کے گھر ’’المنظر‘‘ میں مقیم تھیں ، وہاں ہماری ملاقات ہُوئی اور اُسی وقت ، مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری ؔاور میاں محمد اکرم طورؔ صاحب سے ، پھر میری اُن سے بہت دوستی ہوگئی ، جس کے نتیجے میں عزیزانِ گرامی، پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ اور سعید آسیؔ بھی میرے دوست ہیں ۔
’’دربار داتا صاحب میں! ‘‘
معزز قارئین ! قیام پاکستان کے بعد ہمارا خاندان میرے والد صاحب کی قیادت میں پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا، مَیں 1955ء میں نویں جماعت کا طالبعلم تھا ، جب میرے والد صاحب مجھے اپنے ساتھ لاہور لائے اور مَیں نے اُنکی سربراہی میں پہلے احاطۂ دربار داتا صاحب میں ،اپنے جدّی پشتی پیر و مُرشد ، خواجہ غریب نواز، نائب رسولؐ فی الہند حضرت مُعین اُلدّین چشتی کی چلہ گاہ پر حاضری دِی اور پھر بارگاہِ حضرت داتا صاحب میں ۔ پھر یہ میرا معمول بن گیا تھا ۔ مَیں نے 1956ء میں میٹرک پاس کِیا اور میری پہلی نعت لائل پور کے روزنامہ میں شائع ہُوئی ۔ 1960ء میں مَیں نے مسلکِ صحافت اختیار کِیا ، جب مَیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ’’ بی ۔ اے ۔ فائنل ‘‘ کا طالبعلم تھا۔ مَیں ضلع سرگودھا میں کئی قومی اخبارات کا نامہ نگار رہا ، 1964ء میں جناب مجید نظامی نے مجھے ’’ نوائے وقت ‘‘ کا نامہ نگار مقرر کِیا ، پھر مَیں کئی مقامی ہفتہ وار اخبارات کا ایڈیٹر اور سرگودھا میں لاہور کے روزنامہ ’’ ہلال پاکستان ‘‘ کا ریذیڈنٹ ایڈیٹر بھی ۔مَیں جب بھی سرگودھا سے لاہور جاتا تو ، حضرت داتا گنج بخش کے دربار میں حاضری کا میرا یہی انداز رہا ۔
’’ بار گاہِ بری سرکار ؒمیں !‘‘
دسمبر 1961ء میں میری لاہور میں راولپنڈی کے روزنامہ ’’ تاجر ‘‘ کے مالک و چیف ایڈیٹر جناب فاروق احمد عثماؔنی سے ملاقات ہُوئی ، اُنہوں نے مجھے روزنامہ ’’ تاجر‘‘ کا نیوز ایڈیٹر مقرر کردِیا اور چند دِن بعد ایڈیٹر۔ جناب فاروق احمد عثماؔنی میرے بہت ہی شفیق دوست تھے ۔ مَیں 1962ء کے آخر تک وہاں رہا اور پھر سرگودھا واپس آگیا۔ قیام ِراولپنڈی کے دَوران مجھے کئی بار ، حضرت غوث اُلاعظم سیّد عبداُلقادر جیلانی / گیلانی کے سلسلہ قادریہ ؔکے حضرت سیّد عبد الطیف کاظمی قادری المعروف امام بری سرکار کے دربار میں جانے کا موقع ملتا رہا۔ یہ میری خوش قسمتی تھی اور آج تک میری قسمت مجھے خوش کر رہی ہے ۔ (جاری ہے)
’’ وفاق ‘‘ سرگودھا / لاہور !‘‘
اوائل 1963 اور پھر 1964ء اور پھر جنوری 1970ء سے 30 جون 1970ء تک مَیں مختلف حیثیت سے سرگودھا / لاہور میں جمیل اطہر قاضی صاحب کے ماتحت روزنامہ ’’ وفاق‘‘ میں سرگرم رہا ۔ مَیں نے اُن سے بہت کچھ سیکھا اور بعد ازاں جب مَیں بہت ہی خود مختارؔ ہوگیا تب بھی اُن سے میری محبت قائم رہی اب بھی ہے ۔ …(جاری ہے)