کچھ لوگ باکمال ہوتے ہیں اپنے ایک ایک منٹ کا مفید استعمال کرنا خوب جانتے ہیں۔ایک بامقصد زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک شخصیت سعید آسی صاحب بھی ہیں جنہیں میں پچھلے کئی برسوں سے جانتی ہوں اور انہیں کام کرتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔ انہوں نے عمر کی تھکاوٹ کو اپنے اعصاب پرکبھی اثر انداز نہیں ہونے دیا۔ کالم نگار بھی ہیں، شاعر بھی ہیں ادیب بھی ہیں اور حیرت انگیز طور پر ان تمام ذمہ داریوں کو نبھاتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ اپنے اقرباءکا بھی نہایت خیال رکھتے ہیں۔ خواہ وہ پھر ان کے گھر کے افراد ہوں یا پھر ان کے آس پاس کے دوست احباب ہوں۔ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ، ایک طویل عرصہ سے صحافت سے منسلک ہیں لہذا پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ہرروز تازہ اداریہ لکھناکوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے وقت بھی چاہئے، مطالعہ بھی اور حالات وواقعات پر گہری نظر بھی ہونی چاہئے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنا نظریہ بیان کرنے کی صلاحیت بھی ہو۔ سعید آسی صاحب یہ ذمہ داری گزشہ کئی برسوں سے بخوبی نبھارہے ہیں۔ وقتا فوقتاان کی تحاریر پر مبنی کتب بھی شائع ہوتی رہتی ہیں۔ بعض اوقات میں حیران ہوتی ہوں کہ وہ بیک وقت اتنی ذمہ داریاں کس طرح بروقت اور کیسی خوبی سے نبھا رہے ہیں۔ حال ہی میں ان کی ایک نئی کتاب”آئین کا مقدمہ“کے عنوان سے منظر عام پر آئی ہے۔ آئین کا مقدمہ سعید آسی صاحب کے نوائے وقت کے کالموں کا مجموعہ ہے۔محبوب احمد لکھتے ہیں کہ ”آئین سازی کی تاریخ بڑی دلخراش ہے کیونکہ مارشل لاءاٹھنے کے بعد سے نئی حکومت پر سب سے بڑی ذمہ داری آئین کا مقدمہ تیار کرنا تھا۔ تاریخ کایہ بنیادی المیہ ہے کہ آئین اور قانون کی حکمرانی کے سنہری اصولوں پر عمل نہیں کیا گیا اور یہ ہر دور میں ہی سیاست کا بازیچہ اطفال رہا۔ آئین و قانون سے انحراف اور اداروں سے ٹکراﺅ کی اختیار کردہ اس پالیسی کو کسی صورت قابل ستائش قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ یہ پالیسی گاڑی کو ٹریک سے ا±تارنے کی کوشش ہے اوریہی آئین کا مقدمہ ہے۔ آپ ان منتخب کردہ کالمز کی اشاعت کے عرصہ پر نظر ڈالئے تو اسی عرصہ میں قانون شکنی و آئین شکنی کی بے شمار کہانیاں یا واقعات آپ کو یاد آئیں گے۔ آپ کے اکثر کالموں سے جہاں سیاست دانوں کی کمزوریوں اور خامیوں کا بے دھڑک اظہار ہوتا ہے وہیں آپ عوام کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں اور محرومیوں کا ذکر کرنا نہیں بھولتے یہی ایک سچے صحافی اور بے باک صحافت کی نشانی ہے۔ لانگ مارچ اور اندیشہ ہائے دوردراز قیامت کا منظر لگتا ہے۔ یوم دستور اور سابق حکمرانوں کے فسطائی ادارے، آج کی روداد سیاست، تبدیلی، قیاس آرائیاں اور جھنجھلاہٹ، نوآبادیاتی نظام اور نظام شریعت جیسے بے شمار معلوماتی کالمز آپ کو اس کتاب میں یکجا ملیں گے۔ دنیائے صحافت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے اس میں بے شمار مواد ہے جو ان کے ذوق اور دلچسپی کا پورا سامان لئے ہوئے ہے۔ انسانی رویے، نازیبا حرکات اور مسائل کو آپ اتنی خوبی اور دلیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ پس تحریر چھپا ہوا بامقصد تجزیہ قاری کے دل میں باآسانی ا±تر جاتا ہے۔ بہت مشکل بات بہت آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔ بہت الجھے ہوئے واقعات کو جن کی بعض اوقات تشریح ہر کوئی آسانی سے نہیں کرسکتا۔ سعید آسی صاحب کا رواں قلم ا±سے نہایت دلیری اورآسانی سے صفحہ پر منتقل کردیتا ہے۔ اگر آپ کے کالموں اور دیگر سیاسی تحاریر کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ آپ کا مقصد اس نظام کو برا کہنا نہیں ہے بلکہ کوئی نظام بھی برا نہیں ہوتا بلکہ اس کو چلانے والوں کے ارادے اور ان کی نیت اس نظام کی خرابی کا باعث بنتی ہے۔ عوام کو اگرچہ ہر بار اپنی پسند کے نمائندے منتخب کرنے کا جمہوری حق دیا جاتا ہے۔ لیکن ہر بار عوام کے جذبوں اور ا±میدوں کے ساتھ ایک نیا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ اس سسٹم کو چلانے والے کبھی عوامی امنگوں کے ترجمان ثابت نہیں ہوسکے اور نہ کبھی جمہوریت کے ثمرات ان کو منتخب کرنے والی عوام تک براہ راست پہنچ سکے ہیں۔ پاکستان کا مروجہ نظام1973ءمیں نافذ ہوا تھا جس میں 25 آئینی ترامیم کی جاچکی ہیں۔ آرٹیکل نمبر38میں عوام کی معاشی اور معاشرتی فلاح وبہبود کا ذکر ہے لیکن کیا واقعی آج ان آرٹیکلز کے مطابق عمل کیا جارہا ہے؟ یا محض یہ آرٹیکلز قانون کے صفحات ہی کی زینت بنے ہوئے ہیں؟ایسے بے شمار ترمیمی آرٹیکلز ہیں لیکن افسوس کہ شاید ان میں سے کسی پر بھی عملی کاگزاری کے بارے میں سوچا بھی نہیںجاتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ صحافی اس زیادتی وظلم کے بارے میں اپنی آواز بلند کرتے رہتے ہیں ان میں ہی صف اول کے نمایاں صحافیوں میں سعید آسی کا بھی ذکر آتاہے۔ پاکستان کے نامور صحافی مجیب الرحمن شامی نے سعید آسی کو صحافت کا”زندہ ولی“ قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ عالم باعمل ہیں جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں اور جو کرتے ہیں وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں۔ ان دوجملوں میں سعید آسی کے سفر صحافت کی پوری طرح سے تشریح ہوجاتی ہے۔
سعید آسی صاحب اسی کتاب کے اوائل صفحات میں لکھتے ہیں کہ " اس لحاظ سے موجودہ عہد انتہائی نازک مرحلے میں داخل ہوچکا ہے کہ اچھائی اور برائی کی کوئی تمیز ہی باقی نہیں رہی۔ آئین، قانون اور عدالتی فیصلوں کی عملداری کے کسی تقاضے کو نبھانے کا سوچنا بھی گالی بنا دیا گیاہے۔ سعید آسی سچے اور پکے پاکستانی مسلمان ہیں۔ ناانصافیوں پر ان کا خون کھولتا ہے اور یہ غم وغصہ قلم کی زبان سے بیان ہوجاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ جب تک ان کی انگلیوں میں لکھنے کی سکت باقی ہے ان کا قلم اسی روانی سے ناانصافیوں کے خلاف لکھتا رہے گا۔