بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی کے بقول وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان میں سیلاب کی صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
کمال ہے پاکستان کو سیلاب میں ڈبونے کا اہتمام کرکے اب اسکی بربادی پر مگرمچھ کے آنسو بہانے کی کا کیسا افسوس؟ جناب! پاکستان کو سیلاب میں ڈبونے اور خشک سالی میں اسے بے آب وگیاہ بنانے والوں کے منہ سے اظہار افسوس کچھ اچھا نہیں لگتا۔ آپ کی اس ادا پر تو کلیم عاجز کی غزل کا وہ شعر یاد آگیا جس میں انہوں نے 1975ء میں بھارت میں ایمرجنسی لگانے اور 21 ماہ انسانی حقوق پامال کئے جانے پر لال قلعے میں منعقد ایک تقریب میں موجود اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کی طرف اشارہ کر کے کہا تھا:
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
کچھ ایسا ہی آپ پاکستان کے ساتھ کرتے چلے آرہے ہیں۔ سیلاب بھیج کر نہ صرف ہماری فصلیں تباہ کیںبلکہ انسانی جانیں بھی لے لیں۔ آپ کا یہ اقدام تو سراسر قتل کے زمرے میں آتا جس پر پاکستان کو عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنا چاہیے۔ مودی جی اب آپ جتنا مرضی اظہار افسوس کرلیں‘ لیکن پاکستانیوں کے دل نہیں جیت سکتے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ آپ پاکستان کے ساتھ خاص مخاصمت رکھتے ہیں۔ بھارت میں کوئی بھی حکومت ہو‘ اس کا ایجنڈا پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کا ہی ہوتا ہے۔ بالخصوص مون سون میں تو پاکستان کو بھارت خالہ جی کا ویہڑہ سمجھتا ہے جسے ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ مودی جی اگر آپ کو پاکستان کے ڈوبنے پر اتنا ہی افسوس ہے تو آئندہ پاکستان کیخلاف ایسا کوئی کرتوت کرنے سے تائب ہو جائیں تو بات ہے۔ لیکن کیا کیجئے! بنیئے کی خصلت کبھی نہیں بدل سکتی۔ وہ آئندہ بھی ایسے ’’کارنامے‘‘ سرانجام دے کر ٹسوئے بہاتا رہے گا۔ اس لئے پاکستانی سیاست دانوں اور لیڈروں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور عوام پر رحم کھاتے ہوئے کالاباغ سمیت تمام چھوٹے بڑے ڈیمز ہنگامی بنیادوں پر بنا ڈالیں تاکہ بھارتی سازشوں کا توڑ کیا جا سکے۔ ورنہ بھارت تو ہماری سرزمین کو کبھی صحرا تو کبھی سیلاب کی نذر کرتا رہے گا۔
٭…٭…٭
بجلی و پانی کے وزیر خرم دستگیر نے کہا ہے کہ بجلی کے نئے بل بھیج رہے ہیں‘ کسی کو ٹھیک کرانے کی ضرورت نہیں‘ اکتوبر سے بلوں میں کمی اور 15 ستمبر سے پٹرول کی قیمتوں میں کمی کا اعلان جلد کر دیا جائیگا۔
پہلے یکم ستمبر سے پٹرول 20 روپے فی لٹر بڑھانے کا عندیہ دیا گیا‘ پھر نرخوں میں کمی کا شوشا بھی چھوڑا گیا۔ پھر اچانک 2 روپے 7 پیسے اضافہ کرکے عوام کو 20 روپے والے جھٹکے سے بچا لیا۔ عوام بھی خوش ‘ حکومت بھی مطمئن ‘ نہ کوئی اجلاس سے بھاگا نہ کسی نے احتجاج کیا۔ رہی بات پٹرولیم اور بجلی کے نرخوں میں کمی کے اعلان کی تو ایسے دل خوش کن اعلانات عوام پہلے بھی کئی بار سنتے رہے ہیں۔ اب تو ایسے اعلانات پر سے ان کا اعتبار ہی اٹھ چکا ہے ۔ وہ جان چکے ہیں کہ ایسے اعلانات صرف سیاسی ہوتے ہیں جو اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں۔اگر ان میں کوئی صداقت ہوتی تو آج عوام کی یہ حالت نہ ہوتی۔ اس لئے ایسے بیانات پر صرف یہی کہا جا سکتا ہے:
خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا
گزشتہ دنوں وزیراعظم نے قوم کو یقین دلایا تھا کہ معاشی گنجائش نکلنے پر وہ عوام کو ریلیف دینگے۔ اب تو آئی ایم ایف سے قسط بھی مل چکی ہے اور سیلاب متاثر ین کیلئے بیرونی امداد بھی آچکی ہے‘ اسکے علاوہ ملک کے اندر جو رقم اکٹھی ہوئی ہے‘ وہ الگ ہے تو جناب وزیراعظم صاحب! اب تو کافی گنجائش نکل آئی ہے۔ اس گنجائش کا رخ قوم کی طرف کب موڑیں گے؟
٭…٭…٭
سیلاب کی تباہ کاریوں نے جس طرح انسانیت کو رلایا سو رلایا‘ بعداز سیلاب اب سبزیاں بھی قوم کو رلا رہی ہیں۔ کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ ’’پہلے پیاز کاٹنے پر آنسو نکلتے تھے‘ اب پیاز خریدنے پر نکلتے ہیں۔ بے شک بدترین بارشوں اور سیلاب نے جہاں شہر ودیہات کا تہس نہس کیا‘ وہیں اس نے ہمارے کھیت کھلیان بھی اجاڑ دیئے۔افسوس کہ اس موقع پر انسانیت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے سیلاب کی تباہ کاریوں سے فائدہ اٹھانے والا پورا مافیا سرگرم ہو گیا۔ غضب خدا کا! کوئی سبزی ڈیڑھ دو سو سے کم نہیں مل رہی۔ پیاز اور ٹماٹر کی تو بات ہی نہ پوچھو‘ انہیں تو جیسے برسات میں پر لگ گئے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ برسات رحمت ہوا کرتی تھی‘ شاذونادر سیلاب کی خبریں سننے کو ملا کرتی تھیں۔ اب تو ہر سال برسات قوم کو سیلاب میں ڈبوجاتی ہے۔ پہلے ادھر بادل چڑھے‘ ادھر گھروں میں مزیدار پکوانوں کی تیاریاں شروع ہو گئیں‘ اب چڑھتی گھٹا دیکھ کر دل گھٹنے لگتا ہے۔ اب تو مون سو ن کی برساتوں پرسیف الدین سیف کی نظم کا یہ شعر پورا اترتا نظر آتا ہے۔
کتنے بے تاب تھے رم جھم میں پئیں گے لیکن
آئی برسات تو برسات پہ رونا آیا
٭…٭…٭
پیپلزپارٹی کی رہنما ‘ وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمن نے کہا ہے کہ عمران خان کا فنڈز اکٹھا کرنا خوش آئند ہے۔ سیاسی قائدین تنقید کے بجائے اتحاد کا مظاہرہ کریں۔
چلیں کسی نے تو بسم اللہ کی۔ شیری رحمان نے حریف کی تعریف کرکے اچھی شروعات کی ہے۔ مخالفین کی تعریف کرنا تو ہماری سیاست میں نہ صرف معیوب سمجھا جاتا ہے‘ بلکہ گناہ کبیرہ تصور کیا جاتا ہے۔ جو اہل اقتدار کر رہے ہوتے ہیں‘ وہی اپوزیشن اقتدار میں آکر کررہی ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت مہنگائی کو جواز بنا کر سابقہ حکومت کیخلاف عدم اعتماد لائی تھی اور اب دیکھ لیں‘ اقتدار میں آکر اس نے مہنگائی کے نئے پرانے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ ہماری حریف اور حلیف جماعتوں کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی کو سکون سے کام نہ کرنے دیا جائے جبکہ انکی لڑائی میں بھرکس عوام کا نکلتا ہے۔ خدا کرے شیری رحمان کے اپنے حریف کے بارے میں ادا کئے گئے یہ تعریفی کلمات بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوں اور انکی تقلید سے ملک میں تعریفوں کا سیلاب آجائے۔ بے شک تنقید ہونی چاہیے لیکن مثبت انداز میں۔ ہمارے ہاں جو تنقید کی جاتی ہے‘ وہ محض تنقید برائے تنقید ہی نظر آتی ہے جبکہ اس میں نفرت کی بو زیادہ ہوتی ہے۔ اگر اہل اقتدار اور حزب اختلاف ایک دوسرے پر تعمیری تنقید کریں تو یہ ملک نہ صرف گل و گلزار بن جائے بلکہ عوام کی قسمت بھی سنور جائے۔ مگر افسوس ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ کیونکہ اس وقت ملک سیلاب کی جن تباہ کاریوں سے دوچار ہے‘ اس میں بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی جا رہی ہے۔ شیری رحمن نے نفرت کی اس فضا میں جو کلی کھلائی ہے‘ اسکی مہک تمام سیاسی جماعتوں کو محسوس کرنی چاہیے تاکہ وطن عزیز بھی تعمیری سیاست کے دن دیکھ سکے۔
٭…٭…٭