حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت اور پُرسوز نمازاور کس کی ہوسکتی ہے۔ کون ہے جو آپ سے زیادہ اللہ کی معرفت کا جو یاں ہو اور آپ سے زیادہ نماز کی روحانی اسرار اور معنویت سے واقف ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ تو اس کیفیت کی اس طرح عکاسی فرماتی ہیں کہ نماز کا وقت شروع ہو جاتا تو یوں محسوس ہوتا کہ آپ ہمیں پہچانتے ہی نہیں ہیں۔کبھی کبھی آپ پر نماز کے درمیان رقت طاری ہو جاتی، چشم مبارک سے موتیوں کی لڑی بہنے لگتی، ایک صحابی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی منظر کشی کچھ یوں کی: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشم ھائے مبارک سے آنسو جاری ہیں روتے روتے ہچکیاں بندھ گئی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا کہ گویا کوئی چکی چل رہی ہے یا کوئی ہنڈیا ابل رہی ہے۔ (ترمذی) رات کی خلوتوں میں آپ جس سوزوگداز اور آہ و بکا کے ساتھ اللہ کے حضور میں حاضر ہوتے اور کس انہماک سے قیام فرماتے اس کا ادراک سورة مزمل کی تلاوت سے ہوسکتا ہے۔
”رات کی نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر عجیب ذوق و شوق کا عالم طاری ہوتا تھا، قرآن پڑھتے چلے جاتے، جب خداکی عظمت کبریائی کا ذکر آتاسبحان اللہ کہتے، عذاب کاذکر آتا تو پناہ مانگتے۔ جب رحم وکرم کی آیتیں تو دعاءکرتے۔ (مسند احمد بن حنبل) آپ نے فرمایا: کہ (رات کی نفل نماز) نمازدو دورکعت کرکے ہے، اور ہر دوسری رکعت میں تشہد ہے اور تضرع وزاری ہے،خشوع وخضوع ہے، عاجزی اور مسکنت ہے اور ہاتھ اٹھا کر اے رب کہناہے،جس نے ایسا نہ کہا تو اس کی نماز ناقص رہی ۔ (ابوداﺅد)“
آپ خود بھی نماز کے جملہ آداب بجا لاتے اور دوسروں کو ان کی تعلیم فرماتے۔ ایک بار کسی شخص نے مسجد نبوی میں آکر نہایت عجلت اور تیزی میں نماز پڑھی آپ ملاحظہ فرما رہے رہے۔ آپ نے فرمایا: اے شخص اپنی نماز پھر پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اس نے دوبارہ اسی طرح نماز ادا کی، آپ نے پھر اسی طرح ارشاد فرمایا۔ جب تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا تو اس نے عرض کیا۔ یارسول اللہ میں کس طرح نمازادا کروں۔ ارشادہوا: اس طرح کھڑے ہو، اس طرح قرا¿ت کرو، اس طرح اطمینان اور سکون کے ساتھ رکوع اور سجدہ کرو۔ (بخاری)
آپ نے ارشافرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا تو وہ خدا کی طرف پوری طرح متوجہ رہے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوجائے اور نمازمیں ادھر ادھر نہ دیکھو کیونکہ جب تم نماز میں ہو خدا سے باتیں کر رہے ہو۔ (طبرانی)