مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی مشترکہ ذمہ داری

 آج ملک میں بد ترین سیلاب کی آفت اور جانی مالی تباہی کے باوجود جو اخلاقیات سے عاری الزام اور جوابی الزام پر مبنی سیاست دیکھنے کو مل رہی ہے یہ کوئی نئی بات نہیں یہ پرانی سیاست کا تسلسل اور کاشتہ ہے ۔ ہمیشہ سے ہمارے ملک کے طالع آزما سیاسی اور مذ ہبی لیڈران کرام اور ان کے پیرو کاروں کا کام مز ھب اورسیاست کے میدان میں دلیل اور منشور کی بجائے مخالف شخصیات کو عامیانہ تنقید کا نشانہ بنانا رہا ہے. سیاسی لیڈر اور انکے عوام کی تفریح طبع کے لیئے مخالفین کی پگڑیاں اچھالنے ہیں رکیک حملوں اور پھبتیوں کی بھرمار کر کے میدان مارنے کو سیاست کا کمال سمجھتے ہیں، ان عوامل کی بدولت عوام کی سوچ اس نہج پر پروان چڑھی ہے کہ جلسوں اور جلوسوں میں مخالفین کے خلاف عامیانہ نعرے لگائے جاتے ہیں اوراپنی پارٹی کے لیڈر کی اخلاق باختگی کے مظا ہر پر تالیاں بجائی جاتی ہیں جو پارٹی لیڈر فن اخلاق باختگی میں باکمال ہو وہی ہماری سیاست کا با کمال قرار پاتا ہے۔ ہمارے اقتدار کے رسیا لیڈ ران کرام کامیابی کے لیئے جھوٹ سچ پر مبنی بیانیئہ بناتے ہیں پھر اسکو عوامی رنگ دیتے ہیں اسطرح سے وہ صد یوں سے محرومیوں اور جبر کے تحت زندگیاں گز ار نے والے عوام کو پیچھے لگانے کے لیئے انکے خوابوں کو تعبیر دینے کی آس دلاتے ہیں اسی وجہ سے ہما رے ملک میں اصولوں اور پرو گرام کی بنیاد پر مبنی سیا ست کرنے والے سیا ستدا ن اور مزہبی لیڈر بتد ریج پسپائی پر مجبور ہوتے چلے گئے اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ ایسے لوگ مفقود ہی ہو جائیں گے۔ شہرت کی بلندیوں کو پانے کے لیئے نفر ت پر مبنی نت نیا بیانیہ ترتیب دینے والے ہی ہماری قسمتوں کے فیصلے کریں گے کیونکہ اب تو اللہ ماشاءاللہ ٹی وی چینلز بھی ریٹنگ کی بڑھوتری کا کردار ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ ملک خدا داد مصائب اور آفات میں گھرا ہوا ہے حکومت ہے بھی اور نہیں بھی کیونکہ سیاست کے بڑے کھلاڑی اقتدار میں بھی ہیں اور اپوزیشن میں بھی، تین صوبوں میں تحریک انصاف اور اسکے اتحادی حکو مت میں ہیں اور باقی مرکز اور سندھ میں مسلم لیگ ن اوراسکے اتحادی اقتدار پر براجمان ہیں یہ سب اقتدار کے مزے تو لے رہے ہیں لیکن عوا می مسا ئل، سیلاب میں گھرے لوگوں کو بروقت مدد نہ پہنچانے، بدانتظامی اور مہنگائی کی ذمہ داری قبول کرنے اور اصلاح احوال کرنے کی بجائے ایک دو سرے کی کردار کشی میں مصروف ہیں اور اقتدار کی بسا ط پر ایک دوسرے کو مات اور شاہ مات دینے کے کھیل میں مشغول ہیں۔پورا ملک سیلاب میں ڈوبا ہے تو ڈوبا رہے، عوام کے ہزاروں مقدمات عدا لتو ں میں زیر التوا ہیں تو کوئی بات نہیں یہ ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ مقدمہ ضرور کھیلیں گے، ملک اقتصادی تباہی کے کنارے پر ہے تو کیا ہوا، عوام کے جان و مال سیلاب کی نظر ہو رہے ہیں تو کوئی فکر نہیں فکر ہے کسی کے ریمانڈ کی کسی کی ضمانت ہونے یا نہ ہونے کی یا پھر جناب عمران خان صاحب کے جلسوں اور جلوسوں کی ہے، گزشتہ کئی دنوں سے یہی کچھ ٹی۔وی چینلز پر دکھایا جا رہا ہے، کسی قوم کو زوال یا تباہی کی طرف لے جانے کے لیئے جو اسباب تاریخ میں درج ہیں ان میں سے کون سا سبب ہے جو ہمارے پیارے ملک میں لیڈروں نے اپنی انا کی تسکین اور سیاسی بے تدبیری سے پیدا نہیں کر رکھا، ملک کے مضبوط ستون فوج، عدلیہ، میڈیا اور سول سروس مسلسل نشانے پر ہیں۔ ایک وقت تھا فوج کو اس لیئے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا کہ وہ جمہوریت کو چلنے نہیں دیتی اب فوج نے سیاستدانوں کو سیاسی اننگز کھیلنے کی چھٹی دے دی ہے تو شور شروع ہوگیا ہے کہ فوج نیوٹرل کیوں ہے؟ ہمیں میچ جیتنے میں مدد کیوں نہیں دیتی، عدلیہ اگر ایک سیاسی فریق کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو دوسرا فریق ناراض ہی نہیں ہوتا کھلم کھلا دشنام طرازی پر اتر آتا ہے، سول سرونٹس کو ہر طاقتور گروہ ہر صورت اپنی مرضی کے مطابق کٹھ پتلی بنانا چاہتا ہے ۔ ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کم ہونے کا علاج بچت، اشیائے تعیش پر پابندی اور پٹرول کے اصراف کو روکنے کی بجائے سارا زور اور آنحصار مزید قرضوں کے حصول پر ہے، زر مبادلہ کا کثیر حصہ پیٹرولیم اور ایندھن سے متعلقہ درآمدات پر خرچ ہوتا ہے اور یہاں صورتحال یہ ہے کہ بجائے پٹرول اور انرجی کے دیگر وسائل کی بچت کی جائے یہ وسائل جلسہ جلسہ اور جلوس جلوس کھیلنے اور سیاسی کھلاڑیوں کی حفاظت کے لیئے سیکیورٹی اداروں کی نقل و حرکت پر خرچ ہورہے ہیں اشیائے تعیش کی درآمد پر پابندی ختم کر دی گئی ہے اور اسطرح ملکی زرمبادلہ بھاپ بن کر اڑ رہا ہے، شنید ہے غیر ملکی دوروں پر بے دردی سے زر مبادلہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ ملک میں سیاسی غیریقینی کی فضا کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری کی رہی سہی امید بھی ختم ہوتی جارہی ہے، اس سارے بکھیڑے میں ہمارے سیاستدان بہتری کا جو نسخہ ابھی تک سامنے لا سکے ہیں وہ انتخاب کے انعقاد کے حوالے سے ہے جو حکومت سے باہر کیئے گئے وہ اگلے سال ہونے والے انتخابات فی الفور کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور وہ جنھوں نے عدم اعتماد کے ذریعے حکومت حاصل کرنے میں غیر ضروری جلد بازی کا مظاہرہ کیا وہ مقررہ وقت پر انتخابات کو ضروری سمجھتے ہیں جبکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نہ تو وقت سے پہلے اور نہ ہی وقت پر انتخابات ملکی مسائل کا حل ہیں بلکہ سرے سے ملکی مسائل کا اور قومی انتخابات کا کوئی تعلق کبھی تھا نہ ہے، آخر اب تک اتنے انتخابات ہونے سے کون سے عوامی مسائل حل ہوئے ہیں جو انتخابات کے بغیر حل نہیں ہوسکتے تھے؟ کون سے ایسے قابل اور اہل عوامی نمائندے انتخابات میں آگے آئیں گے جو آج تک نہیں آئے، یقینا'' انتخابات کے مروجہ نظام کے تحت تو یہی لوگ جو آج تک حکومتیں بناتے بگاڑتے رہے ہیں آئندہ بھی منتخب ہو کر حکمران بنیں گے اور دھڑلے سے اپنا سابقہ کردار نئے مینڈیٹ کے ساتھ دہرائیں گے۔سےقومی انتخاب کی دیر سویر ملکی معیشت یا سیاسی استحکام کے لیئے کو ئی نسخہ کیمیا نہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے نبٹنا، زر مبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ کرنا، توانائی کی بچت، ٹیکسیشن کا کڑا نظام نافذ کرنا اور سیاستدانوں کو آنا پرستی چھوڑ کر باہمی بات چیت کا راستہ اپنانا ہوگا، سیلاب کی تباہ کاریوں کے سد باب کے لیئے پاک فوج جتنی متحرک نظر آرہی ہے سول سوسائٹی اور انتظامیہ اتنی متحرک نظر نہیں آرہی، فی الفور کرنے کے کام تو میڈیا پر سیاسی بخار کو بتدریج کم کرنا، ڈالر کو سٹہ بازوں کی جلب زر سے محفوظ کرنا، توانائی کی بچت، اور ٹیکسز کا حصول اور اس پر حکومت کی گرفت ہے ان امور پر قومی اتفاق رائے کے لیئے میڈیا چینلز کو اپنا کرادار ادا کرناچائیے۔

 ساری کوششوں کا مرکز اس وقت آپس کی مخاصمت کی بجائے سیلاب زدگان کی مدد ہونا چائیے یہ تب ہی ممکن ہے کہ ملک میں سیاسی بے چینی پیدا کرنے سے اجتناب کیا جائے اور حکومت اور اپوزیشن سیلاب زدگان کی بحالی تک زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں اس سلسلے میں صدر مملکت اپنا غیر جانبدارانہ کردار ادا کریں اور آل پارٹیز کانفرنس بلائیں جس کا ایجنڈا سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنا، سیاست میں برداشت اور باہمی احترام کو فروغ دینا اور اگلے الیکشن تک سیاسی پارہ معتدل رکھنے کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات سے ملکی معیشت اور متاثرین کو نکالنا ہو۔مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتیں سب شامل اقتدار ہیں اور سارے ہی صوبے بری طرح سے سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہیں اس لیئے عوام کو درپیش مسائل کا حل ان سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے ان میں سے کوئی بھی اس مشکل صورت حال سے ملک کو نکالنے کی ذمہ داری سے مبرا نہیں۔

ای پیپر دی نیشن