بالاآخر آئی ایم ایف سے قرضہ مل ہی گیا اور شہباز حکومت سرخرو ہو ہی گئی اپنے مشکل ترین فیصلوں کے نتیجے میں ، چار سے زائد ماہ کی انتھک محنت رنگ لے ہی آئی باوجو د اس کے کہ بھارت کے ساتھ ساتھ خود پاکستان کی اُس سیاسی جماعت کی مجرمانہ مخالفت کے کہ جو پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا چاہتی تھی اور محب وطن کہلاوانے میں رات دن ایک کئے ہوئے تھی مگر کردار وہ ادا کیا جو پاکستان کا ازلی دشمن بھارت شروع دن سے ادا کرتا چلا آرہاہے ۔بھارت نے بھی پاکستان کو آئی ایم ایف قرضہ کی مخالفت کی اور پاکستان تحریک انصاف نے بھی پاکستان کو آئی ایم ایف قرضہ کی مخالفت ہی نہیں بلکہ اسے روکنے کی ناکام کوشیشیں بھی کیں ،فرق کیا رہا دونوں میں ۔ ہم اس طرف آتے ہیں مگر پہلے زرا تفصیل بتا دیں اپنے پڑھنے والوں کو آئی ایم ایف کے قرضہ کے حوالے سے ....آئی ایم ایف نے قرض کی دو اقساط جن کا حجم 1.16 ارب ڈالر ہے پاکستان کو جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے، صر ف یہی نہیں بلکہ آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان قرضہ پروگرام کی میعاد میں ایک سال کی توسیع بھی دے دی ہے اور یہ 30جون 2023ءتک جاری رہے گا۔ اس پروگرام کے تحت قرض کی مجموعی رقم میں ایک ارب ڈالر کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی کہ بھارت کے سوا سب ممالک نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا ۔ آئی ایم ایف کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ بورڈ نے توسیعی فنڈ کی سہولت کے تحت مشترکہ 7ویں اور 8ویں جائزے کی تکمیل اور 1.6بلین کی قسط جاری کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ جائزے کی تکمیل سے کثیرالجہتی اور دو طرفہ ترقیاتی شراکت داروں سے اہم بیرونی فنانسنگ کو متحرک کرنے میں مدد ملے گی۔ بورڈ نے جون 2023 کے آخر تک پروگرام کی توسیع اور 720ملین ڈالر 934 تک رسائی کو بڑھانے کی منظوری بھی دی ہے جس سے پروگرام کا کل سائز کم وبیش سات ارب ڈالر ہو جائے گا جو کوٹے کے 245.6 فیصد کے برابر ہے۔ آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے جانی و مالی نقصان پر گہرے دکھ اور ہمدردی کا اظہار کیا۔ ایگزیکٹو بورڈ نے پروگرام کو دوبارہ پٹری پر لانے کے لیے پاکستانی حکام کی حالیہ کوششوں کا خیرمقدم کیا اور پروگرام کی پالیسیوں اور اہداف کے لیے عزم کی تجدید کی۔ پاکستان کے لئے 1.16ارب ڈالر اسی ہفتے کے دوران پاکستان کو موصول ہو جائیں گے۔دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی پاکستان کی معیشت کیلئے مثبت پیش رفت ہے جس سے پاکستان کے معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کا خطرہ بھی ختم ہو گیا۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے پاکستان مشکل معاشی امتحان سے سرخرو ہو کر نکلا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ وضاحت بھی کی کہ گو کہ آئی ایم ایف پروگرام ایک مرحلہ ضرور ہے لیکن پاکستان کی اصل منزل معاشی خود انحصاری ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے پاکستان میں معاشی استحکام آئے گا۔ شہباز شریف نے دعا کی کہ آئی ایم ایف کا یہ آخری پروگرام ہو۔ آئندہ پاکستان کو کبھی اس کی ضرورت نہ رہے۔ پرُ امید ہوں مسلم لیگ ن کی سابق حکومت کی طرح ایک بار پھر آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہیں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی اسی ایک لائن کو لے لیا جائے تو یہ با ت بالکل حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن کبھی بھی غیر ملکی خصوصاً آئی ایم ایف سے قرض لینے کے حق میں نہیں رہی اور ماضی میں اس جماعت نے آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہا بھی تھا مگر پی ٹی آئی کی سابقہ حکو مت نے جہاں ملک کے انتظامی معاملات تہہ و بالا کر دیئے تھے وہاں معاشی طور پر ملک کو دیوالیہ کرنے کے دہانے پر بھی پہنچا دیا تھا جس کے بعد ن لیگ کی موجودہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے کے سوا دوسرا اور کوئی آپشن باقی نہیں رہا تھا لیکن ا س کے باوجود ہمیں امید ہے کہ بقول وزیر اعظم شہباز شریف کے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ یہ آخری پروگرام ہے تو خدا کرے کہ واقعی یہ آخری پروگرام ہو اور اس کے بعد پاکستان کو کبھی آئی ایم ایف ہی کیا کسی بھی عالمی مالیاتی ادارے سے قرض جس پر سود بھی ادا کرنا ہوتا ہے نہ لینا پڑے اور پاکستان خود مختار ہی نہیں خود دار ملک کی طرح دُنیا کے نقشے پر ابھرے اور پھر سے اپنا ساٹھ کی دہائی والا امیرانہ تشخص بحال کرنے میں کامیاب ہو جائے جب پاکستان خود جرمنی جیسے ملکوں کو قرضے فراہم کرتا رہا تھا ۔چلتے چلتے پی ٹی آئی کی طرف سے آئی ایم ایف کو لکھے جانے والے خط پر بھی بات ہو ہی جائے کہ ضروری تصور ہورہا ہے جہاں تک سابق وزیر ا عظم عمران خان کا تعلق ہے تو وہ سب کو بتانا چاہتے ہیں کہ اُن کے بغیر پاکستان چل سکتا ہے نہ ہی ادا رے اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں ،صرف عمران خا ن ہی ہیں جو ملک چلا سکتے ہیں دوسرا اور کوئی نہیں ۔تو چلئے اُن کے مطابق ہی ہم بھی فرضی طورپر مان لیتے ہیں کہ وہ اور پاکستان اگر لازم و ملزوم ہیں تو پھر انہیں صرف اس ایک سوال کا جواب دینا ہوگا کہ جب وہ وزیراعظم تھے تو اُن کے چار سالوںکے د و ران ملک کی معاشی حالت کیسی تھی اور آج مسلم لیگ ن کے صرف چارماہ کے عرصہ میں کہاں پہنچ چکی ہے ،بس صرف اس ایک سوال کا جواب دے دیں ،مگر ہمیں پتہ ہے کہ وہ اس کا جواب دینے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں اس لئے اس کا جواب بھی ہم ہی دیئے دیتے ہیں وہ بھی دو لائنوں میں کہ خان صا حب کے چار سالہ دور میں ملک دیوالیہ ہو چکا تھا جبکہ ن لیگ کے محض چار ماہ کے نہایت مختصر ترین عرصہ میں ملک کو دیوالیہ پوزیشن سے نکال لیا گیا بلکہ آئی ایم ایف نے متذکرہ خط ردی کی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے پاکستان کےلئے مقررہ قرضہ میں اضافہ بھی کردیا ۔اسی لئے تو لکھا سازشیں ناکام ، ن لیگ حکومت سرخرو۔
تھی اور آج مسلم لیگ ن کے صرف چار ماہ کے اقتدار ی عرصہ میں ملکی معاشی حالت کیا ہے