یقیناوہی ادارے استحکام کے مستحق ہوتے ہیں جو قوم کی آواز ہوتے ہیں۔ جن کے پیچھے قوم کی ہمدردی موجود ہوتی ہے۔ اسی ہمدردی کے حصول کو ملک کے اعلیٰ ایوانوں اور دیگر تمام طبقوں سے یقینی بنانے کیلیے ٹی ڈی سی مختلف قسم کے پروگرامز کا انعقاد کر رہا ہے۔ٹی ڈی سی اسلام آباد مری ایکسپریس کے کنارے واقع خوبصورت نظاروں کا مسکن ہے۔ یہ پاکستان میں شوگر کے علاج میں مگن انتہائی اہم مرکزِ شفا ہے۔ شفا کا یہ کارِ خیر اس وقت شروع ہوا جب خدمتِ انسانی کے دلنشین وژن کو 2011 میں عملی جامہ پہناکر مسحور کن عمارت کا سنگِ بنیادرکھا گیا۔ اس کا دائرہ ِکار ابتدا ء میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے باسیوں تک محدودتھا جو رفتہ رفتہ اور قد م بہ قدم ایک نیٹ ورک کی شکل اختیارکرتا گیا۔ اپنے وجود میں آنے کے بعد آج یہ اس موڑ پر پہنچ چکاہے کہ اس نے اپنی خدمات دیگر شہروں اور علاقوں تک پھیلا دی ہیں۔ ذیابیطس کے علاج پر مشتمل ایسے مرکز کا وجود میں آنا کسی نعمت سے کم نہیں ہے، خاص طور پر جب ستائیس ملین پاکستانی اس موذی مرض کا شکار ہیں جن میں زیادہ تعدادان فرزندانِ وطن کی ہے جو بیس یا اس سے زیادہ عمر کے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، حالیہ سالوں میں ہونے والی اموات کی چوتھی بڑی وجہ ذیابیطس تھی جس نے اہلِ حل و عقد کو ہلا کے رکھ دیا۔ ان شماریات کا مزید مشاہدہ کریں توایک بینا آنکھ ٹھنکے بغیر نہیں رہ سکتی۔ در اصل، ذیابیطس کا مرض پاکستان میں ایک گھمبیر صورت اختیار کر گیا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تازہ اعدادو شمار کے مطابق پاکستان ذیابیطس سے متائثرہ ممالک میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ ہم بدترین صورتحال سے دوچار ہیں۔ یہاں اس موڑ پر کسی مسیحائی وجود کی ضرورت تھی جو اس نازک صورتحال کا ادراک کرتا، اسکے تدارک کیلیے لائحہ حل تیار کرتا اور اسے عملی جامہ پہنانے کیلیے اپنی خداد ادصلاحیتوں کو بروئے کار لاتا۔ پس تاریکی تو تھی ہی لیکن تاریکی کے دامن میں کسی ستارے کا چمکنا بھی ایک فطرتی عمل ہے۔ صحت کی دنیا میں اس ستارے کودنیا نے ڈاکٹر اسجد حمید کی صورت میں ٹمٹماتے دیکھا۔ ڈاکٹر صاحب ایک عاجزانہ طبیعت کی مالک پر خلوص شخصیت ہیں جو ذاتی فائدے کے خوگر اگر ہوتے تو بیرونِ ملک عالمی سطح کی پرکشش مراعات کے رسیا ہی رہتے اور انہیں ہی اپنی زندگانی کا طرہِ امتیاز گردانتے مگر ان کی قسمت میں تو تاریکی کا دامن تار تار کرنا لکھا تھا۔ یوں انہوں نے ذیابیطس کی نازک صورتحال کو درست سمت میں پرکھا اور عالمی معیار کے مرکزِ شفا کا سنگِ بنیاد رکھنے کا منصوبہ بنایا۔ شاعرِ مشرق اقبال کے بقول،
نگاہ بلند، سخن دلنواز، جان پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کیلئے
اس میرِ کارواں نے قدم اٹھایا اور اس کے کارِ خیر کی جب خوشبو پھیلی تو اس کی ہاں میں ہاں ملانا صرف ان کے حصے میں آیا جنہیں اللہ نے برگ وگل سے شہد کشیدکرنے کی صلاحیت سے مالامال کیا تھا۔ پس طاہر ایم عباسی اور دیگر کئی شخصیات اس کاروان کا حصہ بنتی گئیں جو 2011میں د ی ڈائبٹیز سنٹر (ٹی ڈی سی) اسلام آباد کے قیام پر منتج ہوئیں۔ اپنے قیام سے آج تک اس مرکزِ شفا نے ان گنت کامیابیاں اپنے نام کی ہیں اور قابلِ داد کارہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں۔ یہ علاج ومعالجے کا سفر اب اسلام آباد کے مرغزاروں سے نکل کر ملک کے وسطی اور جنوبی علاقوں کی طرف پھیلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس سلسلے میں مزید ہسپتالوں اور کلینک کے قیام کا منصوبہ بتدریج آگے بڑھ رہا ہے۔ لاہور میں اسی طرح کا ایک مرکز بن چکا ہے جبکہ ساہیوال میں ایک شاندار عمارت اپنے تکمیل کی طرف گامزن ہے۔ اسی طرح ملک کی کئی شخصیات نے دیگر کئی شہروں میں ٹی ڈی سی ہسپتال بنانے کیلیے زمین فراہم کرنے کی آفر کی ہیں جو ٹی ڈی سی کے وژن اور خدمات کی پذیرائی کی طرف کا اشارہ ہے۔ الغرض ٹی ڈی سی کثیر شعبوں پر مشتمل پاکستان کے بڑے طبی مراکز میں شامل ہو چکا ہے جو یقینا ایک خواب کی حقیقی تعبیر کی زندہ مثال ہے۔