رودکوہیوں کے سیلابی ریلوں نے سو سالہ ریکارڈ توڑ ڈالا

وہوا میں سیلابی صورتحال کی رپورٹ
منظور احمد قریشی 
 وہوا ضلع ڈیرہ غازی خان کا ایک اہم ترین قصبہ ہے جو کہ تین صوبوں پنجاب، خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ہے اس کے مغرب میں آٹھ کلومیٹر کے فاصلہ پر کوہ سلیمان کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے جہاں ہر چند سال بعد رودکوہیوں کے سیلابی ریلے وہوا شہر اور اس کی نواحی بستیوں میں تباہی کی ایک نئی داستان رقم کرتے ہیں ہر مرتبہ کئی قیمتی جانیں، مال مویشی، گھر، دکانیں ، گھریلو قیمتی سامان سیلابی ریلوں کی نذر ہوجاتی ہیں ۔ اس سال کوہ سلیمان پر معمول سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں اور ضلع ڈیرہ غازی خان کی جانب سے تحصیل تونسہ شریف میں فلڈ ایمرجنسی کا نفاذ کیا گیا ہے وہوا شہر کے میدانی اور کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلہ پر گذشتہ کئی دنوں سے شدید بارشوں کا سلسلہ جاری رہنے کے باعث رودکوہیوں وہوا، رودکوہی کوڑا، رودکوہی باجھہ اور سیوڑی میں آنے والی طغیانی نے گذشتہ سو سالوں کی طغیانی کا ریکارڈ توڑ دیا اور ان رودکوہیوں میں وہ سیلابی ریلے آئے جنہوں نے وہوا اور نواحی بستیوں کو اجاڑ کر رکھ دیا۔17 اگست کے دن یہ رودکوہیاں اپنے پورے جوبن پر بہ رہی تھیں شہری آبادیوں کو بچانے کے لیے بنائے گئے حفاظتی بندوں کو مضبوط بنانے کے لیے پورا دن وہوا شہر اور نواحی قصبات کے نوجوان، بوڑھے اور بچے اپنی مدد آپ کے تحت ان بندوں کے پشتوں پر مٹی ڈالتے رہے جبکہ الخدمت فائونڈیشن اور انصار الاسلام جیسی رضاکار تنظیمیں بھی اس کام میں ان کے معاون رہیں اور ٹریکٹروں کے ذریعے ان پشتوں کو مضبوط بنانے کا سلسلہ جاری تھا مگر 17 اور 18 اگست کی درمیانی شب ساڑھے گیارہ بجے ان رودکوہیوں میں بڑے سیلابی ریلے آئے اور ان حفاظتی پشتوں کو توڑتے ہوئے شہری آبادی علاقہ بھر میں پھیل گئے۔وہوا شہر اور بستیوں کی مساجد سے  اعلانات ہوتے ہی ہر طرف افراتفری پھیل گئی ہر شخص اپنے گھروں اور اس میں موجود سامان کی پرواہ کیے بغیر اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچانے کے لیے اپنے اہل خانہ سمیت محفوظ مقامات کی جانب دوڑنے لگا۔سیلابی ریلے آبادیوں میں داخل ہونے سے قبل اکثر مکین محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہوگئے اسی دوران رودکوہی مٹھاون کے تیز رفتار سیلابی ریلے وہوا شہرکے جنوبی طرف سے شہر کے محلوں محلہ سنیاسی،محلہ حیات آباد، محلہ ماندھل، محلہ ڈاکٹر نذر، محلہ باٹھی اور بستی درولی جبکہ رودکوہی باجھہ کے سیلابی ریلے شمالی طرف سے شہر کے محلوں محلہ نیو آبادی دنڑ، محلہ دربھی اور محلہ جت شمالی میں داخل ہوئے اور شہر بھر میں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آنے لگا سیلابی ریلے آناً فاناً سرکاری عمارتوں بارڈر ملٹری پولیس ، بلوچ لیوی پوسٹ، گورنمنٹ گرلز ہائیر سیکنڈری سکول، گورنمنٹ پرائمری سکول نمبر 5 ، دفتر سب تحصیل، ویٹرنری آفس، پی ٹی سی ایل ایکسچینج، ضلع کونسل لائبریری، دفتر یونین کونسل وہوا شمالی سمیت پورے شہر میں پھیل گئے ۔ شہری اپنی آنکھوں کے سامنے ان کے کچے اور پکے مکانوںاپنے آشیانوں کو اجڑتا اور ان میں موجود اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی کو تباہ ہوتے دیکھ رہے تھے، مگر بے بس اور لاچار نظر آرہے تھے ۔6 سے 8 فٹ اونچے ان سیلابی ریلوں نے  لتڑا، کلاچی، گنب، موگا، ڈکھنہ، چرکن، بیٹ فتح خان، بیٹ چرکن، چنڑ، گاڈی شمالی، جلوالی کی بستیوں میں داخل ہوکر ہر طرف تباہی مچادی ہر طرف قیامت صغریٰ کا منظر تھا ہر طرف آہ و بکا  تھی ۔
ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تحصیل تونسہ شریف میں فلڈ ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود حکومت کی جانب سے شہریوں کو سیلاب سے بچانے یا سیلاب زدگان کی ریلیف کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظام نظر نہیں آیا شہری سارا دن اپنی مدد آپ کے تحت اپنے بچوں اور ناگزیر سامان کو گھروں سے نکالتے نظر آئے۔ الخدمت فائونڈیشن اور انصار الاسلام کے رضاکاران بھی خواتین، بچوں اور شہریوں کے سامان کو ریسکیو کرنے میں مددکرتے رہے۔ سیلاب وہوا شہر اور نواحی بستیوں میں کئی قیمتی انسانی جانیں نگل گیا۔ سیلابی ریلوں میں بچے بڑے کئی افراد بہہ گئے جن کی لاشیں بعد میں کئی کلومیٹر دور سے مل سکیں ۔سیلابی ریلے وہوا ور نواحی قصبات کے 1200 سے زائد گھر اپنے ساتھ بہا کر لے گئے جن میں وہوا شہر کے 500 سے زائد، بستی لتڑا کے 250 سے زائد، بستی جلوالی کے 100 سے زائد ، یونین کونسل کالووالہ کے 350 سے زائد گھر شامل ہیں جبکہ سیلابی ریلے ان گھروں میں موجود شہریوں کے قیمتی زیورات، فرنیچر، الیکٹریکل اشیاء بھی اپنے ساتھ بہا لے گئے۔ وہوا اور نواحی بستی کے مکینوں کی معیشت کا زیادہ تر انحصار مال مویشی اور زراعت پر ہے وہوا شہر اور نواحی بستیوں خصوصاً یونین کونسل کالووالا سے شہریوں کے 1000 سے زائد مویشی جن میں گائے، بھینسیں، بھیڑ، بکریاں شامل تھیں۔ سیلابی ریلے اپنے ساتھ بہا کر لے گئے جبکہ ہزاروں ایکڑ پر کاشتہ کپاس، مکئی، گوارہ، کھجور، چاول، باجرہ، جوار اور سبزیاں اپنے ساتھ بہا کر لے گئی جس سے شہریوں کو اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے ۔
وہوا اور نواحی بستیوں میں آنے والے سیلاب کا پانی تو اتر گیا ہے مگر یہ سیلاب تباہی کی ایک نئی داستان رقم کرکے چلا گیا ہے یہاں کے مکینوں کا قیمتی گھریلو سامان اور ساری زندگی کی جمع پونجی سیلاب میں بہہ چکی ہے اور وہ نہایت ہی کسمپرسی کی حالت میں ہیں یہ مکین اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہوئے اور سیلاب گزر جانے کے بعد کھلے آسمان تلے زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں حکومت کی جانب سے ان کی بحالی کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جارہے الخدمت فائونڈیشن اور انصار الاسلام سمیت مخیر حضرات کی جانب سے انہیں کھانا فراہم کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ کئی دن گزر جانے کے باوجود ان علاقوں میں حکومت کی جانب سے سیلاب زدگان کے لیے ابھی تک کسی قسم کی نہ تو مالی امداد کا اعلان کیا گیا ہے اور نہ ہی انہیں کوئی  خوراک مہیا کی جارہی ہے تاہم محکمہ ہیلتھ کی جانب سے گورنمنٹ بوائز ہائی سکول وہوا ور گورنمنٹ بوائز کالج میں فلڈ ریلیف اور فری میڈیکل کیمپ قائم کردیئے گئے ہیں ۔سیلاب متاثرین کا کہنا ہے کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے مگر حکومت وقت اور ریاستی اداروں کی جانب سے ان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک کیا جارہا ہے ۔متاثرین کے لیے کوئی خیمہ بستی قائم کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی امداد دی جارہی ہے۔معصوم بچے  بھوک سے چلا رہے ہیں جبکہ بچے کھچے مویشیوں کے لیے چارہ تک میسر نہیں ہے ۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ای پیپر دی نیشن