تعلیم انسان کو زمین سے اٹھا کر اوج ثریا تک پہنچا دیتی ہے۔ مادرِ علمی اس میں بہترین کردار ادا کرکے علم کے پیاسوں کو گفتار کا غازی، مردحر اور بندہ مومن بنا دیتی ہے۔ گورنمنٹ کالج ساہیوال بھی ایک ایسی ہی دانش گاہ ہے جہاں جہاں دانشِ نورانی و دانش برہانی کی فراوانی ہے اور تربیتِ جسم و روح سے فرد کو انسان کے مقام تک پہنچایا جاتا ہے۔
چند روز قبل ایک محب ساہیوالین طارق نعیم فرشتہ نے لاہور میں ساہیوالین فرینڈز گروپ کے لئے مینگو پارٹی اور ڈنر کا اہتمام کیا تھا جس کا انصرام و انتظام ریاض مسعود نے کئی روز کی محنت سے کیا۔ مجیب الرحمن شامی، ندیم کامران، ثاقب علیم، محمد اویس، حاکم علی، محمد رفیع پروفیسر، آغا زاہد، ڈاکٹر زاہد حسین ، جاوید اقبال بھٹی، بریگیڈیئر ظاہر، بریگیڈیئر محمود، پروفیسر آصف تنویر و متعدد خواتین و حضرات نے بھرپور انداز میں شرکت کی۔ وہیں گورنمنٹ گریجویٹ کالج ساہیوال کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر ممتاز احمد سے پْرجوش ملاقات ہوئی وہ بچوں کے ہمراہ ساہیوال سے خصوصی طور پر تشریف لائے تھے۔ وہ دیکھتے ہی کہنے لگے گاڑی میں بیٹھے آئے ہیں یہاں گھوم پھر کر دوستوں سے ملاقات کرتے ہیں پھر ہم کئی دوستوں سے ان کی نشستوں پہ جاکر ملے سب ہشاش بشاش تھے۔ سعید آسی صاحب کسی خاص مصروفیت کی وجہ سے نہ آ سکے۔ڈاکٹر ممتاز احمد نے جی سی ساہیوال کا علمی و ادبی مجلہ خوبصورت ربن میں سلیقے سے باندھا ہوا تحفتاً پیش کیا تھا اور فرمایا کہ آپ بھی اپنی کوئی تحریر مجھے ای میل کریں ہم آئندہ شمارہ میں شامل اشاعت کریں گے
میں نے پوچھا کہ کالج کا کیا حال ہے
ڈاکٹر ممتاز احمد نے بتایا کہ ’’جب موجودہ ذمہ داری میرے سپرد کردی گئی تو پھر وہ دن اور آج کا دن ہر دم رواں ہے زندگی کی مانند کالج کے معاملات ہیں۔ میں اپنے عظیم سابقہ سربراہان ادارہ کی شاندار روایات کو تر و تازہ اور مستحکم رکھنا چاہتا ہوں۔
میں نے پرنسپل صاحب سے پوچھا کہ کیا خستہ حال سڑکیں تعمیر و مرمت سے ہمکنار ہوئی ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ جیسے آپ چھوڑ کر آئے تھے ویسے ہی ہیں۔ گورنمنٹ کالج ساہیوال میں جب ہم طالب علم تھے تو پرنسپل پروفیسر آغا امجد علی نے ایک روز بتایا کہ پرسوں گورنر پنجاب جنرل عتیق الرحمن کالج کا دورہ کریں گے تمام علمی و فکری مجالس جگہ جگہ اپنے اجلاس منعقد کریں ہم انہیں یہ کارکردگی دکھائیں گے۔ ایک دن اور دو راتیں باقی تھیں بلدیہ ساہیوال نے کالج کی تمام سڑکوں کی تعمیر و مرمت کی
اسوقت سے اب تک کسی نے کالج کی قلعہ نما عمارت اور سڑکوں کی خبر نہیں لی۔ موجودہ عمارت کا 1951میں اس وقت کے وزیراعلیٰ ممتاز احمد دولتانہ نے سنگِ بنیاد رکھا تھا۔میں نے ڈاکٹر ممتاز احمد سے کہا چونکہ سڑکوں کی مرمت اور عمارت کی ٹیپ پر کروڑوں روپے خرچ ہوں گے اس لئے چندہ ڈال کر بھی ایسا کرنا ممکن نہیں کیونکہ مہنگائی نے رہتی سہتی کسر نکال دی ہے۔ لوگ بجلی کے بل دینے کیلئے بل جلا رہے ہیں۔ جو سبزیاں ساگ، سرسوں، شلغم، مولی، گاجر و دیگر وافر مقدار میں ہونے کی وجہ سے گا?ں میں جانوروں کو ڈالتے تھے وہ اب کوئی غریب اور متوسطہ طبقہ بھی خریدنے سے قاصر ہے کہ دو دو سو روپے کلو مل رہی ہیں۔
ڈاکٹر ممتاز احمد سے میں نے دریافت کیا کہ آپ نے 2019 کو پرنسپل کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی تھی اب تک تو کافی بہتری آئی ہوگی۔ انہوں نے فرمایا کہ اس وقت کالج میں تقریباً سات ہزار سے زیادہ طلبا و طالبات ہیں اور 150اساتذہ ان کی تعلیمی پیاس بجھانے کیلئے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ طالبات کیلئے تمام طرح کے الگ انتظامات کئے ہوئے ہیں۔ خواتین اساتذہ کیلئے بھی الگ سٹاف روم ہے۔ کالج میں جدید آئی ٹی لیب تیار کی گئی ہے جہاں طلبا و طالبات دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی اور علم و فکر کو جاننے کیلئے تحقیق و تضحص کے مراحل عبور کرسکتے ہیں روز گارڈن میں پھر سے گلاب مہکنے لگے ہیں۔ سینکینگ گارڈن اپنی اصلی حالت میں آگیا ہے۔ مجید امجد پوسٹ گریجویٹ لائبریری بھی فعال ہے۔
میں نے پرنسپل ڈاکٹر ممتاز احمد سے پوچھا اب آپ کا کالج کی بہتری کے لئے مزید کیا پروگرام ہے تو انہوں نے کہا کہ فنڈز کی کمی ہے لیکن پھر بھی اللہ مسب الاسباب ہے۔ ڈائریکٹر پروفیسر مسعود احمدفریدی بے حد مددگار ہیں ہم آئندہ ایم فل کی کلاسز کی ابتدا کرنا چاہتے ہیں۔ ایلومینائی ایسوسی ایشن کی مدد سے ضرورت مند لیکن مستحق ذہین طلبا و طالبات کو وظائف دئیے جارہے ہیں۔ بی ایڈ ایم ایڈ کی کلاسز ہیں، اطلاقی نفسیات کی لیب بنائیں گے اپنے اساتذہ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے راغب کریں گے۔ کھیلوں میں ہم ہر سال کئی انعامات حاصل کرتے ہیں۔ ساہیوال بورڈ آف انٹرمیڈیٹ میں ہمارے ایف اے، ایف ایس سی کے طلبا کئی سال سے اعلیٰ پوزیشن حاصل کررہے ہیں۔ ہم اْن کی اِن کامیاب صلاحیتوں کی بنا پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ تعمیرِ آشیاں ممکن ہوسکے۔
میں نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ نے آغا امجد علی سابق پرنسپل کی یاد تازہ کردی ابھی تو پروفیسر قمر الزماں خاں سابق پرنسپل کی بھی سرپرستی حاصل ہوگی۔ پرنسپل ڈاکٹر ممتاز احمد نے فرمایا جی جی بالکل بزرگ اساتذہ ہمارے لئے قابلِ احترام ہیں۔ آپ کو جب فرصت ملے تو اپنی مادرِ علمی گورنمنٹ گریجویٹ کالج ساہیوال تشریف لائیں آپ کو ہم کھلے دل سے خوش آمدید کہیں گے اور کالج پہلے سے بہت بہتر صورت لگے گا۔ میں نے کہا جی میں ضرور آ?ں گا تاکہ اپنے بحرکی موجوں میں اضطراب پیدا ہو، چراغ لالہ سے دامن روشن ہو، اپنی یادیں تازہ کروں اور دیکھوں کہ کس طرح یہ میرا دوسرا گھر نغموں پہ اکساتا ہے۔ میں نے سب سے اجازت لی اور ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کیا، گھر کو لوٹ آیا کہ انہوں نے بھی واپس ساہیوال جانا ہے۔ اللہ سے دعاگو ہوں۔
عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطا کر دیں
شکوہِ سنجر و فکرِ جنید و بسطامی