اس وقت جو کچھ پرویزالٰہی کے ساتھ ہو رہا ہے اسے ہم سانپ سیڑھی کا کھیل کہہ سکتے ہیں۔ ایک مقدمے میں ضمانت ملتی ہے تو دوسرا سامنے آتا ہے اور پھر گرفتار ہوتے ہیں۔ یوں وہ گزشتہ کئی ماہ سے ادھر ادھر ہو رہے ہیں۔ عدالتوں کے پھیرے لگا رہے ہیں۔ کبھی خود چل کر جاتے ہیں۔ کبھی اٹھائے جاتے ہیں۔ کبھی گھیرے میں لی کر جیل پہنچائے جاتے ہیں۔ نجانے اس سترے بہترے کے بابے کو یوں اس عمر میں رگیدا جا رہا ہے یا ہیرو بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یاد آیا اکبر بگٹی مرحوم کی چودھریوں کے خاندان سے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ دیکھ لیں ان کو بھی جنرل مشرف کے دور میں عمر کے اس حصہ میں مارا گیا جب وہ ازخود کینسر کے ہاتھوں چند ماہ کے مہمان تھے۔ اب وہی اکبر بگٹی شہید بن کر یاد کئے جاتے ہیں۔ اب کیا پنجاب کو پرویزالٰہی کی شکل میں ایک شہید کا تحفہ دینے کا ارادہ تو نہیں۔ اکبر بگٹی تو مرد کوہستانی تھے۔ وہ اس عمر میں بھی سختیاں جھیل گئے۔ پہاڑوں میں روپوش ہو گئے۔ پرویزالٰہی تو چودھری ہیں‘ وہ اتنی سختیوں کے عادی نہیں‘ نہ ہی پنجاب میں روپوش ہونے کیلئے کوئی جگہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اکثر لمبی زبان والے افغانستان جا کر چھپے بیٹھے ہیں یا بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ چودھری مونس الٰہی بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ گرچہ ان کی زبان زیادہ دراز نہیں مگر مالی معاملات دور دور تک پھیلے ہیں۔ وہ بیرون ملک بیٹھ کر اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ مخالفین معترض ہیں کہ انہیں اس وقت اپنے والد بزرگوار کی دیکھ بھال کیلئے پاکستان ہونا چاہئے تھا۔ مگر ہمارے ہاں اکثر سیاسی رہنما?ں کے گھر والے بیرون ملک رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ابتلا کے موسم میں ساتھ دینے کوئی نہیں آ تا۔ مونس الٰہی بھی یہی وجہ ہے والد کے اٹھائے جانے کو اغوا کہہ کر اپنا غصہ ظاہر کر رہے ہیں مگر واپس آنے کو تیار نہیں کہ کہیں خود بھی ابتلا میں مبتلا نہ ہوں۔
٭٭……٭٭
وزارت خزانہ کی طرف سے توانائی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی بڑھنے کا خدشہ
خدا جانے یہ مزاحیہ خدشات کہاں سے ہمارے وزارت خزانہ کے اعلیٰ دماغوں میں آتے ہیں اور وہ ایسے اوٹ پٹانگ مسخرانہ بیانات جاری کرتے ہیں۔ بندگان خدا یہ خدشہ نہیں ایک تلخ حقیقت ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں معمولی سا بھی اضافہ ہو مہنگائی کی ایک بڑی لہر اٹھتی ہے۔ اب تو خیر سے معمولی نہیں اچھا خاصا بھاری بھرکم اضافہ ہوا ہے۔ اس کے جواب میں جو مہنگائی کی لہر اٹھے گی اسے ہم سونامی کہہ سکتے ہیں جس کی زد میں آکر نظام زندگی تہس نہس ہو جائے گا۔ ویسا ہی ہو رہا ہے۔ اب بھی اگر حکمرانوں کو کچھ نظر نہ آئے تو اس پر سوائے تاسف کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ ہر طرف آگ لگی ہوئی ہے۔ لوگ عملی طورپر سول نافرمانی پر اتر آئے ہیں۔ بجلی بل جلائے جا رہے ہیں۔ کھمبے اکھاڑے جا رہے ہیں۔ اب بھی اگر حکومت کی آنکھیں نہ کھلیں تو پھر خدانخواستہ خانہ جنگی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ بے شک ہم لوگ صابر و شاکر ہیں۔ اپنے پرہر ظلم و ستم سہہ لیتے ہیں۔ اف تک نہیں کرتے‘ لیکن اب بات بڑھ گئی ہے۔ کوئی بھی اپنی آل اولاد پر آنچ آنے نہیں دیتا۔ جب بات گھر اور گھروالوں تک آجائے تو پھر مارو یا مر جائو والا مرحلہ آجاتا ہے۔ خدا نہ کرے یہ مرحلہ آئے۔ حکمران بجلی بلوں اور پٹرولیم کے حوالے سے لگی آگ کو دانشمندی سے بجھا دیں۔ آئی ایم ایف کی ترجیحات اپنی جگہ‘ عوام کے مسائل اپنی جگہ۔ لوگوں کو ریلیف دینا بہرحال حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ایک اور بات جسے ہم الگ بات بھی کہہ سکتے ہیں‘ یہ ہے کہ ہڑتال کرنے والوں میں اکثریت ان کی بھی ہے جو بل ادا نہیں کرتے ، بجلی چوری کرتے ہیں۔ کنڈے ڈالتے ہیں۔ اگر یہ تمام بجلی صارف ایمانداری سے بل ادا کرتے تو حالات اتنے نہ بگڑتے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ حکمرانوں کی مختلف اداروں کی مفت بجلی خوری اور بجلی چوری کی سزا عام صارفین کو مل رہی ہے جو ایمانداری سے ہر ماہ اپنا پیٹ کاٹ کر بجلی بل ادا کرتے ہیں۔
٭٭……٭٭
اب بلوچستان میں حقیقی تبدیلی کا وقت آگیا ہے: نوابزادہ جمال رئیسائی
نواب غوث بخش رئیسانی کے پوتے ، ڈگری ڈگری ہوتی ہے جیسے جملے کے خالق اسلم رئیسائی اور لشکری رئیسانی کے بھتیجے بلوچستان کے نڈر شہید رہنما سراج رئیسائی کے جواں سال صاحبزادے جمال رئیسانی نے بطور وزیر اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے اپنے پہلے پیغام میں اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بطوروزیر کھیل و ثقافت و امور نوجواناں کہا ہے کہ اب بلوچستان میں حقیقی تبدیلی کا وقت آچکا ہے۔ میرے گھر اور دفتر کے دروازے عوام کیلئے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔ پیغام کے آ خر میں انہوں نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ جانفزا لگا کر ثابت کیا کہ وہ شہید سراج رئیسانی کے حقیقی جانشین ہیں جو اپنے جوتوں پر اور قدموں تلے اپنے ازلی دشمن بھارت کا پرچم بنائے رکھتے تھے۔ ان کی یہی بھارت دشمنی اور پاکستان سے محبت دہشت گردوں ، بھارتی ایجنٹوں سے برداشت نہیں ہوتی تھی اور انہوں نے ایک جلسے میں خودکش دھماکہ کرکے انہیں متعدد ساتھیوں سمیت شہید کر دیا تھا۔ اب ان کے بعد ان کے بیٹے نے حب الوطنی کا یہ پرچم اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔
25 سال کی عمر میں وہ وزیر بنے ہیں۔ بے شک یہ عہدہ عارضی ہے اگر وہ اس مختصر دور میں عوام کا دل جیتتے ہیں تو آگے چل کر وہ بلوچستان کی صوبائی یا ملکی سطح پر سیاست میں نام کما سکتے ہیں۔ خدا کرے ایسے محب وطن نوجوان کامیاب ہوں اور آگے بڑھ کر نفرتوں کی آگ بجھانے میں معاون ثابت ہوں اور ملکی و صوبائی سیاست میں محبتوں کے گل کھلائیں۔ جمال رئیسانی تھائی لینڈ میں اعلیٰ تعلیم کے دوران وہاں یونیورسٹی کی فٹبال ٹیم میں ایک اچھے کھلاڑی بھی رہے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے انہیں کھیلوں کی وزارت ملی ہے اور امور نوجوانان ان کو جوان ہونے کی وجہ سے ملی ہے۔ وزیر ثقافت بھی ہیں‘ وہ ان شعبوں کو بہتر بنانے کیلئے کیا کرتے ہیں یہ وقت ہی بتائے گا۔
٭٭……٭٭
ایران سے گیس‘ تیل اور بجلی ارزاں قیمت پر خریدنے میں تامل کیوں
آخر جب تک ہم عوام کو تڑپا تڑپا کر مارنے والی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے۔ ہم ایران کی طرف سے تیل‘ بجلی گیس ارزاں نرخوں پر فراہم کرنے کی اس پرکشش آفر کو کیوں قبول نہیں کر رہے۔ ہم سے لاکھ درجہ بہتر پالیسی تو بھارت کی ہے جو مسلمانوں کا قتل عام بھی کرتا ہے اور عرب دنیا کا بہترین دوست اور تجارتی کاروباری پارٹنر بھی ہے۔ عرب ممالک میں سب سے زیادہ بھارتی مسلم و غیر مسلم ملازمین کام کرتے ہیں مزدوری کرتے ہیں۔ وہ امریکی پابندیوں کے باوجود ایران سے تیل و گیس بھی لیتا ہے اور وہاں بھی صنعتی و تجارتی سرگرمیاں جاری رکھے ہے۔ ایک ہم ہیں کہ نجانے کس کس کے خوف میں مبتلا ہیں۔ کس کس سے ڈرتے ہوئے ایران کی پیشکش قبول کرنے سے کنی کتراتے ہیں۔
وہی ملک دنیا میں کامیاب رہتے ہیں جو اپنے عوام کو ریلیف دیتے ہیں۔ بیرونی دبائو کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اپنی خارجہ پالیسی میں توازن پیدا کرتے ہیں۔اب تو عرب و ایران کے درمیان بھی بہترین تعلقات بحال ہو رہے ہیں۔ پوری دنیا امریکی دبائو کا مقابلہ کرتی پھرتی ہے۔ تو ہمیں بھی سب کواعتماد میں لیتے ہوئے یقین کے ساتھ ایران سے تیل‘ گیس اور بجلی ارزاں نرخوں پر حاصل کرکے ملک و قوم کو اس بد ترین بحران سے نکالنا ہوگا۔ عوام کی تکالیف کا ازالہ کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات کیلئے مسلم ممالک کے ساتھ باہمی تعلقات‘ تجارتی و صنعتی تعلقات قائم کرنا ہونگے۔ ایران ہمارا قریبی پڑوسی برادر ملک ہے وہاں سے تیل‘ گیس و بجلی کی فراہمی کم از کم وقت اور کم خرچے میں ممکن ہے۔ تو تاخیر کیوں‘ گیس پائپ لائن چند ماہ میں ہنگامی بنیادوں پر مکمل کریں۔ ساتھ ہی چاہ بہار سے مکران تا کراچی تیل پائپ لائن بچھا لیں یا بحری جہازوں سے تیل پہنچائیں۔ بجلی کے کھمبے تو پہلے سے موجود ہیں۔ تو تاخیرکیوں۔۔۔۔