ارشاد باری تعالی ہے : ’’ جو ایمان لائے اور عمل صالح کیے اللہ ان کو محبوب بنا کر دوست بنا لے گا ۔یعنی انہوں نے اپنے دلوں کی حفاظت کی اور اپنے بھائیوں کے حقوق کو ادا کیا اور اپنے مقابلہ میں ان کی بزرگی اور شرافت کو دیکھا ۔
حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : حسن رعایت اور حفظ مراتب کے سلسلہ میں مسلمان بھائیوں کی محبت کو تین چیزیں پاکیزہ بناتی ہیں ایک یہ کہ جب کسی سے ملاقات کرو تو اسے سلام کرو دوسرے یہ کہ اپنی مجلسوں میں اس کے لیے جگہ بنائو تیسرا یہ کہ اسے اچھے القاب کے ساتھ یاد کرو ۔
ارشاد باری تعالی ہے : تمام مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں لہذا اپنے بھائیوں سے صلح و آشتی رکھو ۔ مطلب یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت و شفقت کے ساتھ پیش آئو کسی کی دل آزاری نہ کرو ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی زیادہ بنائو ۔ اور ان کے حقوق میں حسن سلوک کر کے بھائی بنائو کیونکہ تمہارا رب اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ روز قیامت باہمی آداب و معاملات کی وجہ سے اپنے بندے پر اسکے بھائیوں کے درمیان عذاب فرمائے ۔اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اپنے بھائیوں کے ساتھ صحبت صر ف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے نہ کہ نفسانی خواہش یا کسی غرض و مفاد کی خاطر۔
حضرت مالک بن دینار نے اپنے داماد حضرت مغیرہ بن شعبہ سے فرمایا : ’’ اے مغیرہ جس بھائی یا ساتھی کی صحبت تمہیں دینی فائدہ نہ پہنچائے تم اس جہان میں اسکی صحبت سے بچو تا کہ تم محفوظ رہو ‘‘۔اس نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری صحبت یاتو اپنے سے بڑے اور اچھے کے ساتھ ہو گی یا اپنے سے کمتر کے ساتھ ۔ اگر اپنے سے بڑے اور اچھے کی صحبت اختیار کرو گے تو اس سے دینی اور دنیوی فائدہ پہنچے گا ۔اور اگر اپنے سے کمتر یا بری صحبت والے کے ساتھ بیٹھو گے تو تم سے اس کو دین کا فائدہ پہنچے گا ۔ اگر تم اس کو کچھ سکھا دو گے تو وہ اس کا دینی فائدہ ہو گا۔
حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : وہ دوست بہت برا ہے جس کو دعا کرنے کا کہنا پڑے کیونکہ ایک لمحہ صحبت کا حق یہ ہے کہ اسے ہمیشہ دعائے خیر میں یاد رکھا جائے اور وہ دوست بہت برا ہے جس کی صحبت خاطر تواضع کی محتاج ہو کیونکہ صحبت کا سرمایہ ہی یہ ہے کہ ہمیشہ باہمی خوشی و محبت میں گزرے ۔ اور وہ دوست بہت برا ہے جس سے گناہ کی معافی مانگنے کی ضرورت پیش آئے اسلیے کہ عذر خواہی بیگانگی کی علامت ہے اور صحبت میں بیگانگی اور غیریت ظلم ہے ۔
(بحوالہ کشف المحجوب)