مرکزی حکومت کے ملک بھر میں اشیاء کی قیمتوں کا جائزہ لینے والے محکمے وفاقی ادارۂ شماریات کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 0.54 فیصد اضافہ ہوا اور 20 اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ اپنی جاری کردہ مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ میں ادارۂ شماریات نے یہ بتایا کہ جن اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ان میں آٹا، چاول، کوکنگ آئل، تازہ دودھ، دہی، چینی، گڑ، دال مسور، چاول، ایل پی جی، انڈے، دال ماش، آلو اور دال مونگ شامل ہیں۔ ان میں زیادہ تر اشیاء بنیادی ضرورت کی ہیں اور ہر گھر میں روزانہ استعمال ہوتی ہیں، لہٰذا ان کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب یہ ہے کہ عام آدمی کو روزمرہ اخراجات کی جتنی رقم کی ضرورت ایک ہفتہ پہلے تھی رواں ہفتے کے دوران اس میں اضافہ ہوا لیکن آمدنی وہیں کھڑی رہی جس کی وجہ سے اس کا معاشی بوجھ پہلے کی نسبت بڑھ گیا۔
بجلی کے بلوں اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے جو صورتحال پیدا ہوئی وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور اس پر عوام کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس بات کو واضح تر کرتا جارہا ہے کہ اگر حکومت نے عام آدمی کو فوری طور پر ریلیف نہ دیا تو ملک خانہ جنگی کی طرف جائے گا اور حالات اس حد تک بگڑ جائیں گے کہ پھر کسی بھی گروہ کے لیے انھیں سنبھالنا ممکن نہیں ہوگا۔ گزشتہ روز ملک بھر میں ہونے والی ہڑتال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ تاجروں کی طرف سے کی جانے والی اس ملک گیر ہڑتال میں جماعت اسلامی سمیت سیاسی جماعتوں نے بھی اپنا نام نتھی کرلیا تاکہ اس طرح یہ تاثر دیا جاسکے کہ وہ مہنگائی کے خلاف ہیں اور عوام کے مسائل کا ادراک رکھتی ہیں حالانکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ موجودہ ملکی اور عوامی مسائل کی بڑی وجہ یہ سیاسی جماعتیں ہی ہیں جنھوں نے اپنے مفادات کو ہمیشہ ملکی اور عوامی مفادات پر ترجیح دی۔
عوام کے غم و غصے پر قابو پانے کے لیے نگران حکومت مختلف حربے آزما رہی ہے۔ گزشتہ دنوں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے اسی سلسلے میں بجلی کے بلوں سے متعلق یکے بعد دیگرے اجلاس بلا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ عوام کی پریشانیوں کا حل نکالنا چاہ رہے ہیں لیکن ان کی طرف سے جو بیانات دیے گئے ان سے پوری طرح واضح ہوگیا کہ وہ عوامی مسائل سے واقف ہی نہیں ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ ملک میں اتنی مہنگائی نہیں ہے کہ لوگ پہیہ جام ہڑتال کریں یہ واضح کرتا ہے کہ وہ آٹے دال کا بھاؤ نہیں جانتے اور نہ ہی انھیں ایسی اشیاء خریدنے کے لیے کسی تگ و دو کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ان سے پہلے آنے والے وزرائے اعظم بھی یقینا اشرافیہ کے نمائندے ہی تھے لیکن کم از کم بیانات کی حد تک وہ ایسی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے جس سے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا تاثر ملتا ہو۔
انوارالحق کاکڑ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ عوام کو بجلی کے بل دینا ہی ہوں گے، اس کے سوا ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔ ان کا بیان اپنی جگہ لیکن عوام کی جانب سے کیا جانے والا احتجاج اور گزشتہ مہینے کا ریکوری ریٹ یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ عوام کے پاس اور کون سا آپشن موجود ہے اور وہ اسے کس طرح استعمال کریں گے۔ اب سینیٹ کی کابینہ سیکریٹریٹ کی مجلس قائمہ کمیٹی نے بجلی کے بلوں پر عائد ٹیکسز ختم کرنے کی تجویز دی ہے۔ چیئر مین رانا مقبول احمد کی صدارت میں پارلیمنٹ ہائوس میں ہونے والے اجلاس نے بجلی کے بھاری بلوں کو المیہ قرار دیا اور کہا کہ عوام میں سخت بے چینی ہے لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں۔ اس موقع پر ارکان نے کہا کہ جس کی تنخواہ 35 ہزار اور بجلی کابل50 ہزار ہو، بتایا جائے کہ وہ بل کہاں سے ادا کرے؟ مجلس قائمہ نے بھاری بھرکم بجلی کے بلوں کو سنجیدہ معاملہ قرار دیا۔ اجلاس کے دوران چیئرمین نیپرا نے کمیٹی کو فی یونٹ قیمت کے تعین کے عمل سے آگاہ کیا۔
ادھر، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی طرف سے ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے عوام کی پریشانی مزید بڑھا دی گئی ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے بعد فی کلو ایل پی جی 38 روپے97 پیسے مہنگی ہوگئی ہے جس سے ایل پی جی کے 11.8 کلو کا گھریلو سلنڈر کی قیمت میں 460 روپے اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح، ڈالر کی قدر میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور عوامی ٹرانسپورٹ کے کرایے بھی بڑھ رہے ہیں۔ انٹرسٹی کرایوں میں کم از کم 200روپے تک اضافہ کردیا گیا۔ شہر میں چلنے والے رکشوں اور ویگنوں کے کرائے بھی بڑھا دیے گئے ہیں۔ پاکستان ریلوے کی جانب سے بھی کرایوں میں 5 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے جس کا اطلاق 2 ستمبر سے ہوچکا ہے۔
نگران وزیراعظم ممکن ہے اس بات سے واقف ہی نہ ہوں کہ قیمتیں بڑھنے سے عام آدمی کیسے متاثر ہوتا ہے اور اس کی پریشانیاں ملک میں انتشار پھیلانے کا باعث کیسے بن سکتی ہیں۔ انھیں چاہیے کہ کچھ زیرک مشیروں سے مشورہ کر کے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ عوام کے مسائل کو کیسے بڑھاتا ہے۔ ساتھ ہی انھیں یہ بھی جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اگر عوام مسلسل پریشانیوں کا شکار ہوتے رہیں تو ان کا ردعمل ریاست کے لیے کن مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ ان کا یہ جاننا بہت ضروری اس لیے ہے کیونکہ وہ اپنے بیانات وغیرہ سے ایسی صورتحال پیدا کررہے ہیں جس سے عوام کے غم و غصے میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کے لیے صرف ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ یہ ہے کہ عوام کو فوری طور پر ریلیف دیا جائے۔