وزیراعلیٰ پنجاب کے احسن اقدامات

احسان ناز
وزیراعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ نے پنجاب کے عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دے کر عوام کے دل موہ للیے ہیں کیونکہ ان دنوں جو بجلی کے بل گھروں میں موصول ہو رہے ہیں بلوں کے ساتھ مریم نواز شریف صاحب کا پیغام بھی شامل ہے کہ میں ائندہ بھی ان دو مہینوں میں ریلیف دیا کروں گی تاکہ پنجاب کے غریب عوام بجلی کے بلوں سے چھٹکارا حاصل کر سکیں لیکن اس موقع پر میں محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ سے پوچھتا ہوں کہ اپ نے الیکشن کمپین میں تو ہر شہری کو 200 یونٹ تک بجلی مفت فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور اپ نے ہر جلسے میں بجلی کے بل لہرا کر یہ کہا تھا کہ جن کا بل 200 یونٹ تک ہوگا وہ جب میری حکومت میں ڈاک خانہ یا بینک میں بل جمع کرائنے کے لیے جاہیں گے تو انہوں مہر لگا کر بتایا جائے گا کہ اپ کا بل وزیراعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ نے ادا کر دیا ہے لیکن میرے دیکھنے میں یہ بات ائی ہے کہ محترم مریم نواز شریف صاحبہ اپنے اس انتخابی وعدہ سے پیچھے ہٹ چکی ہیں اور اب دو ماہ کے لیے ریلیف اور 10 ماہ کے لیے پورے بل غریب عوام کو دینے پڑیں گے جبکہ پنجاب کے عوام کو سولر سکیم کے فوائد بتانے شروع کر دیے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ائندہ دنوں میں پنجاب کے باسیوں کو سولر سکیم کے ذریعے بجلی کے معاملے میں خود کفیل کر دیا جائے گا تاکہ ا پنجاب کے عوام کو بجلی کی بلوں سے چھٹکارا حاصل ھو گا بہت احسن اقدام ہے لیکن یہ سلسلہ جس پروسس کا حصہ ہے ایک سال سے زیادہ لگ جائیں گے کیونکہ پنجاب حکومت کے پاس ایسا کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر غریب عوام کو بجلی کے بلوں سے نجات دلائی جا سکے۔        وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ نے پنجاب کے ہر شہری کے لیے صحت کی سہولتیں فراہم کر رکھی ہیں اور ائے دن ہم ٹی وی چینل اور اخبارات میں بڑے بڑے اشتہار دیکھتے ہیں کہ مریضوں کو میڈیسن فری ان کے گھروں تک کورییر وا لے لےکر جا رہے ہیں اور اشتہارات میں یہ بھی دکھایا جاتا ہے میڈیسن کورییر والے ہر گھر کی کنڈی کھڑکاتے ہیں اور میڈیسن کا پیکٹ نکال کر دکھاتے ہوئے اشتیاروں میں نظر ارہے ہیں لیکن میرے مشاہدے میں یہ بات ہے کہ ہارٹ کے مریضوں کو جن سے وعدہ کیا گیا ہے کہ ہم اپ کو میڈیسن اپ کے گھروں میں پہنچائیں گے وہ صرف وعدہ ہی ہے اور جن مریضوں کے یہ کہا گیا تھا کہ ہم اپ کے گھر میڈیسن پہنچائیں گے ان کی انکھیں ترس گئی ہیں کہ کب کوریر ا کر ہماری کنڈی کھڑکاے گا اور ہمیں دوائی ملے گی امید ٹوٹے کے بعد جب کوئی بھی ہارٹ پیشنٹ پی ائی سی میں جا کر پوچھتا ہے کہ مجھے میڈیسن نہیں ائی تو انہیں لالی پپ دیا جاتا ہے کہ اپ جائیں اپ کو میڈیسن گھر پہنچا دی جائیں گیں لیکن شکایت لے کر انے والے مریض سے نہ تو ایڈریس پوچھا جاتا ہے اور نہ ہی فون نمبر لیا جاتا ہے کہ اس ایڈریس پر میڈیسن بھیجیں گے تو میں حیران ہوں وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ اور ان کے عملے کے پاس کون سا ایسا جادو کا کرشمہ ہے کہ ایڈریس کے بغیر ہی میڈیسن مریضوں کو گھروں میںپہنچائی جا رہی ہے اس طریقے سے میڈیسن بھیجنے کا طریقہ کار شفاف ہوتا ہوا نظر نہیں ارہا جس طرح وزیراعلی پنجاب نے گزشتہ دنوں غریب عوام میں اٹا تقسیم کیا تھا اور روزانہ مریم نواز شریف صاحبہ اچانک غریب لوگوں کے گھروں میں جا کر اٹے کی پوری تقسیم کرتی تھی لیکن 90 فیصد عوام اس تھیلے سے محروم رہے لیکن اربوں روپے کا اٹا تقسیم کر دیا گیا تو مجھے شک ہے کہ اسی طرح غریب مریضوں کو دی جانے والی میڈیسن بھی سرکاری عملے کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں اور میڈیسن گھروں میں دینے کی بجائے پرائیویٹ میڈیکل سٹور پر بیچی جا رہی ہیں محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ اس عمل پر پنجاب کے عوام کی نگاہ میں تحفظ کا شکار ہے اس سکیم کو وزیر اعلی پنجاب خود چیک کریں اور چوری شدہ میڈیسن کو واپس منگوا کر اپنے وعدے کے مطابق غریبوں کے گھروں میں پھجیں اس سے ان کی نیک نامی میں اضافہ ہوگا اور سیاسی طور پر بھی انہیں فائدہ ہوگا       اب جس طرح وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ نے پنجاب کے عوام کے لیے میڈیسن اور علاج فری کر رکھا ہے تو وہ اپنے والد محترم میاں محمد نواز شریف کے لیے بھی پنجاب میں ہی دوا دارو میڈیسن کا انتظام کریں اور انہیں لندن علاج معالجہ کے لیے یاترا نہ کرنے دیں وہ پہلے ہی چار سال لندن میں علاج کرا کے واپس تشریف لائے ہیں اور ان کی امد کے بعد ہی ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف اور بیٹی مریم نواز شریف اقتدار میں ائے ہیں اگر وہ چھوڑ کر پھر لندن چلے گے تو پھر عوام پریشان ہوں گے کہ بھائی اور بیٹی کی حکومت ہوتے ہوئے میاں محمد نواز شریف لندن علاج کے لیے کیوں جا رہے ہیں جبکہ بیٹی پنجاب کے 13 کروڑ عوام کا عاج اچھے انداز میں کر رہی ہے تو کیا وہ اپنے باپ کا علاج معالجہ اور ٹیسٹ پنجاب کے کسی بھی ہاسپٹل سے نہیں کروا سکتی یا پھر پنجاب کا کوئی ہاسپٹل اور ڈاکٹر اس قابل نہیں ہے کہ وہ میاں نواز شریف کا علاج کر سکیں جبکہ یہ بھی سننے میں ا رہا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب بھی اپنا علاج معالجہ کرانے کے لیے لندن تشریف لے جا رھی ہیں میں ان سے ملتمس ہوں وہ بھی اپنا علاج معالجہ اپنے پنجاب کے ہاسپٹل میں کروائیں اور عوام کو ترغیب دیں کہ میں اور میرے والد جن ہاسپٹل میں اپ کا علاج ہوتا ہے وہیں سے کروا رہے ہیں اور پھر ائندہ دنوں میں وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ اپنے والد کو لے کر کسی بھی سرکاری ہسپتال میں داخل ہوں اور اپنا علاج کرائیں اور صحت یاب ہونے پر پورے پاکستان کے ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں اشتہاری مہم چلائیں کہ میں نے اپنے والد اور اپنا علاج پنجاب کے ہاسپٹل سے کروایا ھےاس سے اپ کی حکومت کی بلے بلے ہوگی اور مخالفین کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا پنجاب کے ہاسپٹل یا پاکستان کے ہاسپٹل شریفوں کے خاندان کے لیے نہیں ہیں اور یہ میسج جائے گا کہ مریم نواز شریف صاحبہ نے پنجاب کے عوام کے ساتھ مل کر اپنا علاج بھی یہاں رہ کر کروایا ہے۔          اج ایک اور خبر میری نگاہ سے گزری ہے کہ پنجاب میں موجودہ حکومت صنعتوں کا جال بچھانے کے لیے دن رات محنت کر رہی ہے یہ بڑی خوشی کی خبر ہے لیکن جب تک پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں اتا اس وقت تک یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ نئی صنعتیں لگانے کی بات کر رھی ہیں جبکہ پچھلے دو سالوں میں 6000 یونٹ پاکستان میں بند ہو گئے ہیں اور یہ یونٹ دبئی بنگلہ دیش قطر اور دوسرے ممالک میں مالکان جا کر لگا رہے ہیں اگر اپ واقعی یہ چاہتی ہیں کہ پنجاب میں صنعتیں لگیں تو اپ کو سیاسی استحکام لانا ہوگا اور اپ اچھی طرح جانتی ہیں جب تک اپ اپوزیشن کے ساتھ بادشاہوں والا سلوک نہیں کریں گے یہ عمل اگے نہیں بڑھے گا میری تجویز ہے کہ پنجاب کی ترقی کے لیے اپوزیشن کو ہر معاملے میں اعتماد میں لیا جائے اور جو بھی سرکاری ڈیلیگیشن کسی بھی بڑے منصوبے کے لیے کسی غیر ملکی تاجروں صنعت کاروں اور اہل کاروں سے میٹنگ کریں اس میں اپوزیشن کے بھی نمائندوں کو شامل کیا جائے تو میں دیکھتا ہوں کہ پنجاب میں ترقی کیسے نہیں ھوتی میرے علم میں یہ بھی ہے پاکستان پیپلز پارٹی جو کہ پنجاب حکومت کی ہر کوشش میں برابر کا ساتھ دیتی ہے لیکن کسی بھی سرکاری کام میں یا عام ملاقاتوں میں ان کی بھی نمائندگی نہیں ہوتی جس کی بنیاد پر ائے دن محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کو اور ان کے وزرا  کو پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھنا پڑتا ہے اور پھر تحفظات دور کرنے کے لیے کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں اور پھر کمیٹی بنا دی جاتی ہے میرے 45 سالہ صحافتی تجربے کے مطابق جب تک اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے کو سیاسی دشمن تو سمجھیں لیکن ذاتی دشمن نہ سمجھیں اور ملکی اور صوبے کی ترقی کے لیے ایک ساتھ ایک پیج کے اوپر اکٹھے ہوں تو ملک سے بے روزگاری مہنگائی اور دیگر مسائل خوش دلی سے حل ہو سکتے ہیں محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ اگر اپ۔           نےپنجاب کو اپنے پاپا اور چچا سے بہت اگے لے جانے کا خواب ھے تو پینجاب کی ترقی کے لیے اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگانے کی بجاے ساتھ لے کر چلیں الللہ تعالءاپ کا اور اپ کی حکومت کا حامی و ناصر ھو گا

ای پیپر دی نیشن