گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
ڈیڑھ سال قبل لمز لاہور میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاکستانی طلبہ کی نمائندگی بڑھانے کے متعلق ایک خصوصی پینل ڈسکشن ہوئی تھی۔ اسے عالمی سطح کامباحثہ کہہ لیں، سیمینار کہہ لیں یا اجلاس کہہ لیں۔عالمی سطح کی اس ڈسکشن میں نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے علاوہ لمز کے فاﺅنڈنگ پروفیسر چانسلر سید بابر علی، پرنسپل لیڈی مارگریٹ ہال،پروفیسر سٹیفن بلیتھ اور پرنسپل لیناکر کالج ڈاکٹر نک براﺅن نے حصہ لیا۔ڈسکشن اس پر ہونی تھی کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاکستانی طلبہ کی نمائندگی کیسے بڑھائی جا سکتی ہے۔اس موقع پر پروفیسر لیناکر نے کہا تھا کہ پوری دنیا میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں پاکستان کی نمائندگی سب سے کم ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کا دنیا میں ایک نام ہے۔جو لوگ صاحب استطاعت ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی اولادیں آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں۔ پاکستان میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد شاید ہزاروں میں ہو لیکن آج تک کوئی بھی پاکستانی آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر نہیں بنا۔ البتہ بے نظیر بھٹو طلبہ یونین کی صدر ضرور بنی تھیں۔بلاول نے اپنی والدہ کی روایت کو آگے بڑھایا۔فاروق احمدخاں لغاری وہ بھی اس یونیورسٹی کے عہدیدار رہے ہیں۔ قائد اعظم اورلیاقت علی خان بھی آکسفورڈ میں پڑھتے رہے ہیں۔عمران خان، بے نظیر بھٹو کے ووٹرز میں شامل تھے۔ آج عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا الیکشن لڑ رہے ہیں اور آج کی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ عمران خان کو کسی طرح الیکشن کی دوڑ سے باہر رکھا جائے یا پھر وہ الیکشن لڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ ہار جائیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی کا کوئی بھی پاکستانی چانسلر بنتا ہے تو یہ پاکستان کا اعزاز ہے۔ اسلامی سربراہی کانفرنس پاکستان میں ہوتی ہے تو سربراہی پاکستان کے حصے میں آتی ہے تو یہ پاکستان کا اعزاز ہے۔ اسی طرح سے کوئی بھی عالمی تنظیم جو پاکستان کی کسی شخصیت کو صدارت کا، سربراہی کا اعزاز دیتی ہے تو یہ پاکستان کی عزت اور توقیر ہے۔ عمران خان کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل یہ بھی کہا جاتا رہا کہ ان کو اقوام متحدہ کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا جا رہا ہے۔ اگر عمران خان اس دوڑ میں شامل ہو جاتے تو جو لوگ آج ان کی آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بننے کی مخالفت کر رہے ہیں ان کی مخالفت کا اس وقت کیا عالم ہوتا جب عمران خان اقوام متحدہ کے سیکرٹری بنا دیئے جاتے۔
عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر بن جاتے ہیں تو اس سے مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی کو کیا نقصان ہوگا ،اسی طرح سے فرض کر لیا جائے کہ مریم نوازشریف وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی یا ہاورڈ یونیورسٹی کی چانسلر بنتی ہیں تو اس سے کسی اور پارٹی کے کیا تحفظات ہو سکتے ہیں یہ تو پاکستان کے لیے ایک آنر ہوگا۔لیکن آج پوری کوشش کی جا رہی ہے کہ عمران خان الیکشن میں حصہ نہ لے سکیں ان کے خلاف آکسفورڈ یونیورسٹی میں پٹیشن دائر کر دی گئی ہے، اس کے علاوہ وہاں پر مہم بھی جاری ہے، شاید کوئی مظاہروں کا سلسلہ بھی چل نکلے ،یہ الیکشن اکتوبر کے آخری ہفتے میں ہونے ہیں اور ووٹرز کی تعداد 2لاکھ 27ہزار ہے۔ یہ ووٹر پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پچھلے سال تک قواعد کے مطابق ہر ووٹرز کو یونیورسٹی میں جا کر ووٹ پول کرنا ہوتا تھا لیکن اب قواعد و ضوابط میں تبدیلی کی گئی ہے اور ووٹرز کو حق دیا گیا ہے کہ وہ آن لائن اپنا ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں۔ووٹنگ کا طریقہ کار وہی ہو گا جو پاکستان میں سینیٹر کے انتخاب کا ہے۔ہر ووٹر نے اپنی ترجیحات بیلٹ پیپر پر دینی ہوتی ہے۔ پہلی ترجیح والے کو کتنے نمبر مل جاتے ہیں ، دوسری والی کو، تیسری والی کو ، اس طریقے سے آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا انتخاب ہونا ہے۔
عمران خان کے خلاف مسلم لیگ ن کی طرف سے باقاعدہ مہم چلائی جا رہی ہے۔ وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کی طرف سے کہا گیا ہے کہ عمران خان نے الیکشن ہی لڑنا ہے تو آکسفورڈ یونیورسٹی کا نہیں بلکہ جیل میں قیدیوں کا الیکشن لڑیں۔ وزیر قانون برائے مملکت بیرسٹر عقیل ملک کی طرف سے بھی کہا گیا کہ عمران خان کو تو”ڈیلی ٹیلی گراف“نے ڈسگریسڈ لکھا ہے۔ ایسی شہرت کا بندہ کیسے آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا الیکشن لڑ سکتا ہے۔ ڈیلی ٹیلی گراف کی رپورٹ میں عمران خان کے بارے میں یہ لکھا گیا تھا کہ ان کو یہ الیکشن لڑتے ہوئے کن مشکلات اور الزامات کا سامنا ہو سکتا ہے ،اس کی تفصیل انہوں نے دی تھی۔ ڈسگریسڈ کا مطلب کوئی اپنی مرضی سے کچھ بھی نکال سکتا ہے۔ اس کا لفظی ترجمہ تو رسوا کیا گیا بنتا ہے ، جس کی تضحیک کی گئی ہو۔ یہ اس کا لفظی ترجمہ ہے۔ ڈیلی ٹیلی گراف کی طرف سے تو یہی کہا گیا ہے۔سوشل میڈیا میں یہ خبریں چل رہی ہیں کہ مسلم لیگ ن کی طرف سے اربوں روپے عمران خان کے خلاف مہم میں لگائے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر جین میرٹ ان کے خلاف بھی پراپیگنڈہ مہم شروع کی گئی ہے۔ وہ پاکستان سے قبل کئی دیگر ممالک میں بھی سفیر رہ چکی ہیں۔ ان پر الزام یہی ہے کہ وہ عمران خان کی حمایت کرتی ہیں۔ لیکن اس کے ٹھوس شواہد کبھی مسلم لیگ ن یا کسی کی طرف سے پیش نہیں کیے گئے۔ جین میرٹ کے خلاف پراپیگنڈہ بھی ایک حد تک ہی کیا جا سکتا ہے اگر آپ برطانوی حکومت کو بھی ملوث کریں گے تو پھر ان لوگوں کے لیے مشکلات ہوں گی جن کی جائیدادیں اور اولادیں برطانیہ میں بیٹھی ہوئی ہیں۔
کچھ لوگوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ جس طرح فارم 47پاکستان میں چکر لگاتا رہا اور اس نے کئی کو چکر دے دیئے اسی طریقے سے خواہش کچھ لوگوں کی یہی ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے الیکشن میں بھی فارم 47اپنا تابناک کردار ادا کرے۔
یہاں پر چھوٹا سا سوال یہ ہے کہ عمران خان کی جو لوگ مخالفت کر رہے ہیں ان میں مسلم لیگ ن سب سے آگے ہے ، کیا ان کی پوری کی پوری لیڈرشپ میں سے کوئی بھی ایک ایسا ہے جو آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے الیکشن کے لیے نامزد ہو سکے۔ منتخب ہونا تو اس کے بعد کا سوال ہے۔اگر ہے تو اس کو عمران خان کے مقابلے میں اتار دیں۔قارئین بہتر اور مناسب رویہ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ چاند سے بھی آگے پرواز کرکے نکل جائیں اور آپ کا ٹارگٹ مریخ اور دوسرے سیارے ہوں نہ کہ آپ چاندپر ”گانٹی“ڈال کر اس کو اپنی طرف نیچے کھینچیں؟دراصل ہمارے پیارے لیگی بھائی اور زرداری صاحب کے جیالے آکسفورڈ کے الیکشن میں بھی آٹھ فروری کی طرح فارم 45کی جگہ فارم 47متعارف کرانا چاہتے ہیں۔جسے بس خواہش ہی کہا جا سکتا ہے۔