رقیہ غزل
اسکارٹ لینڈ میں ایک مصور رہتاتھا جو اپنے فن پاروں کی وجہ سے بہت مشہور تھا کیونکہ وہ اس قدر حقیقت سے قریب ترہوتے تھے کہ دیکھنے والوں کو چھونے کے بعد پتہ چلتا تھا کہ یہ توایک ڈرائینگ ہے یونہی ماہ و سال کی محنت کے بعد اس پینٹرنے ایسی پینٹنگ بنائی جو ایک کھلا ہوا دروازہ تھا لیکن اس کے پار اس قدر دلفریب نظارے تھے کہ جو کوئی اسے دیکھتا تو بے ساختہ اس کے قدم بڑھ جاتے اور وہ اس دروازے سے گزرکر ان نظاروں کو دیکھنے کی کوشش کرتا مگر جب یہ پینٹنگ نمائش کے لیے پیش کی گئی تو لوگوں نے داد تو خوب دی مگر جب وہ اس کے قریب جاتے تو پتہ چلتا کہ یہ پینٹنگ ہے تو وہ داد طنزیہ مسکراہٹ میں بدل جاتی کسی نے یہ بات پینٹر کو بتا دی تو وہ بہت اداس ہوا تو اس کی بیوی نے اسے کہا کہ یقینا اس کی پینٹنگ میں کوئی کمی رہ گئی ہے اور جتنا وقت اس غم میں گزار رہاہے کہ وہ اپنا بہترین فن نہیں دکھا سکا اسے اس کو دوبارہ بنانا اور کمی کو دور کرنا چاہیے یہ سن کر پینٹر نے دن رات کی عرق ریزی کے بعد ا ز سر نو پینٹنگ بنائی اب کی بار تصویری دروازہ اس قدر حقیقت سے قریب تر تھا کہ ہر کسی کو گمان ہوتا جیسے یہ پر فضا مقام کا دروازہ ہے جب تک وہ اسے چھو نہ لیتا یا داخل ہونے کی کوشش میں ٹکرا نہ جاتا ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان جتنا وقت اپنی خامیوں کو سننے اور دوسروں کو لاجواب کرنے میں صرف کرتا ہے اگر وہی وقت اپنی خامیوں کو دور کرنے میں گزارے تو نسلوں کے لیے مثال بن جاتا ہے بے شک غلطی کو غلطی نہ سمجھنا بھی بہت بڑی غلطی ہوتی ہے کیونکہ وہ گمراہ ہے جو اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا بد قسمتی سے آج کا انسان اپنی غلطیوں کا بہترین وکیل اور دوسروں کی غلطیوں کا جج بن چکا ہے لیکن ہمیں ماننا پڑے گا کہ عام آدمی کی غلطی کا نتیجہ صرف اسی آدمی کو یا اس سے جڑے چند افراد کو جبکہ ایک ملکی سربراہ کی غلطی کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتاہے اس پر طرہ اگر وہ اپنی غلطیوں کو سدھارنے کی بجائے ان پر واہ وائی کروانے کا مزاج رکھے تو تباہی یقینی ہے۔
بدقسمتی کے ساتھ ہمارے حکمرانوں کا مزاج بن چکا ہے کہ وہ خوشامدیوں میں گھرے رہتے ہیں اور وہی دیکھتے ہیں جو انھیں موقع پرست دکھاتے ہیںبایں وجہ ان کے بیانات سوالیہ نشان بن جاتے ہیں جیسا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ”ملک کی خاطر سیاست قربان کر دی ، ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا اورمعیشت استحکام کے بعد ترقی کی طرف گامزن ہے “ یہ بیان لمحہ فکریہ ہے ! ایسا کونسا سنگین جرم ہے جو اس وقت نہیں ہو رہا بلکہ جرم کی تفصیل اور ویڈیو زچند گھنٹوں بعد ہی سوشل میڈیا کے ذریعے گھر گھر پہنچ جاتی ہیں مزید مہنگائی سارے ریکارڈ توڑ چکی کہ بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق2021 سے لیکر اب تک بجلی کی قیمتوں میں 155 فیصد اضافہ ہوچکا ہے ۔۔ اسی طرح ہر چیز کی قیمت میں تقریبا اتنا ہی اضافہ ہوا ہے اور قوت خرید بڑھی نہیں بلکہ بیروزگاری بڑھ گئی ہے کہ فیصل آباد میں تقریباً ایک سو سے زائد فیکٹریاں بند ہو گئی ہیں اور دو لاکھ مزدور بیروزگار ہوگئے ہیں ،تاجرشٹر ڈاﺅن ہڑتال کر رہے ہیں کیونکہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دب گئے ہیں ،یوٹیلٹی سٹورز کی بندش کے اعلان پر ہزاروں ملازم بیروزگار ہو چکے ہیں اور پارلیمینٹ ہاﺅس کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں ،پی آئی اے اور ریلوے بھی خسارے میں ہیں ،تشہیر پر اربوں خرچ کئے جا رہے ہیں مگر نہ نجکاری ہو رہی ہے اور نہ ہی کوئی سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہے ،سرکاری تعلیمی اداروں کی ساکھ خطرے میں پڑ چکی ہے جبکہ معاشی کی حالات کیوجہ سے والدین نے بچوں کو سکولوں اور کالجوں سے اٹھا لیا ہے ،جان بچانے والی ادویات ویسے ہی غریب کی پہنچ سے دور چکی ہیں مزید ہسپتالوں میں خراب مشینیں پڑی ہیں لیکن پروٹوکول کی پرچی کے ساتھ دوڑنے لگتی ہیں ،دہشت گردی پورے ملک کو لپیٹ میں لے چکی ہے کہ بلوچستان میں بس سے اتار کر مارا جا رہا ہے ،خیبر پختونخواہ میں لوگوں کو اغوا کیا جارہا ہے اور پنجاب اور سندھ کی سرحدوں پر کچے کے ڈاکوﺅں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور جو ادھر جاتا ہے زندہ نہیں بچتا بلکہ پولیس کے اہلکاروں کو شہید کر کے اب وہ سر عام ویڈیوز میں دھمکیاں دے اور للکار رہے ہیں کہ جان و مال کا تحفظ خواب بن چکا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک و قوم کی حالت کیا ہے اور کونسی ترقی کی طرف ہم گامزن ہیں ؟ پھر بھی کہنا کہ سب اچھا ہورہاہے جبکہ ماضی ہے ادھر گول اور ادھر حال ندارد
ہارون الرشید نے بہلول سے پوچھا : چور کے بارے کیا حکم ہے ؟بہلول نے کہا: عالی جاہ!” اگر چور پیشہ ور ہو تو اس کا ہاتھ کاٹ دینا چاہیے اور اگر چور ی مجبور ہو کر کی گئی ہو تو حاکم وقت کی گردن اڑا دینی چاہیے“ یہی تو ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں وہی لوگ برسر اقتدار آتے ہیں جو اپنے علاوہ کسی کو انسان نہیں سمجھتے تو فکر آخرت کیسی۔۔؟بڑا شور سنتے تھے کہ تجربہ کار ٹیم آئے گی اورسٹیٹس کو ٹوٹ جائے گا مگر سچ یہ ہے کہ یک بعد دیگرے ماضی کے حکمرانوں کی کار گزاریوںکے ہی ریکارڈ ٹوٹتے جا رہے ہیں اور آج کل جبکہ حالات یہ ہیں کہ ملک کا اہم ترین مسئلہ عمران خان کا آکسفورڈ یونیورسٹی کا الیکشن لڑنا ٹھہرا کہ اس پر حکومتی ترجمان پریس کانفرنس کر رہے ہیں اور باقاعدہ بحث و مباحثے چل رہے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں کہتا بجلی کا بل دیکھ کر ایک خاتون نالے میں چھلانگ لگا دی اور ایک جواں سال لڑکا چلتی ریل کے نیچے آکر خود کشی کر چکاہے بجلی کے بلوں اور دہشت گردی سے جو گھروں کے چراغ بھج رہے ہیں ان گھروں میں پھیلے اندھیر وں کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیونکہ جانتے ہیں کہ جو سوال کرے گا اسے دیوار میں چنوا دیں گے کیونکہ شہباز سرکارپی ٹی آئی کے لئے ایسے پھندے تیار کر کے لائے ہیں جو کہ صرف انھی کے ناپ کے ہیں چونکہ وہ باری باری پھندوں سے نکل جاتے ہیں اس لئے کار کردگی پر سوال کرنے والا ہی صریحاً دہشت گرد ٹھہرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سب کچھ چل رہا ہے بس معاشرہ نہیں چل رہا ۔۔
کاش ! ہمارے کرتا دھرتا قرآن پاک پڑھتے تا کہ انھیں پتہ چلتا کہ قوموں پر قحط کیوں نازل ہوا تھا؟ احادیث مبارکہ اور سنت رسول پاک کا مطالعہ کرتے کہ پتہ چلے کہ زندگی کیسے گزارنی چاہیے ؟ خلافت راشدہ پڑھتے تاکہ پتہ چلتاکہ ریاستی خوشحالی کے لیے انصاف کی بلا تفریق فراہمی کتنی ضروری ہے ؟ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے کہ پتہ چلے کہ بادشاہوں کی کونسی غفلت سے دشمن غالب آگیا تھا ؟شہباز سرکار کو بھی تبدیلی سرکار کی طرح سمجھ نہیں آرہاکہ وقت گہرے سمندر میں گرا وہ موتی ہے جس کا دوبارہ ملنا نا ممکن ہے اور وقت ہاتھ سے جا رہا ہے۔عوام کو مایوسی و ناامیدی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے کیونکہ اس وقت روٹی کا قحط ہی نہیں بلکہ حکومتی ایوانوں میں” قحط الرجال“ بھی ثابت ہو رہا ہے۔اور ہر شخص کہہ رہا ہے کہ” زندگی کے نام پر مجھ کو خیال ، ایک زہریلا سیہ خانہ ملا“مگر ہم کہتے ہیں کہ اس وقت سے ڈرو کہ جب کہا جائے گا کہ
یہ منظر کونسا منظر ہے ‘پہچانا نہیں جاتا
سیہ خانوں سے کچھ پوچھو شبستانوں پہ کیا گزری