تجا ہلِ عا رفانہ     تماشہ، تماشا گر، تما شبین

ڈاکٹرعارفہ صبح خان       
پاکستان عبرت گاہ بنا دیا گیا ہے۔ کراچی میں ابھی چار دن پہلے میگا مال ڈریم بازار میں درجنوں یا سینکڑوں نہیں، ہزارں لوگ رات بھر دیوانوں کی طرح بیٹھے رہے کہ جونہی میگا مال کے دروزے کھلیں اور یہ لوگ اند ر جاکر سیل لُوٹیں۔ جب سے یہ برینڈ کا چکر چلا ہے۔ پوری قوم برینڈز کے پیچھے پاگل ہو گئی ہے۔ ہزاروں لوگ جن کی تعداد لگ بھگ بیس پچیس ہزار تھی۔ وہ سب پاگلوں کی طرح ایک دوسرے پر ٹوٹے ہو ئے تھے۔ یہ وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوکر ہماری اخلاقی پستیوں کا نوحہ پڑھ رہی تھی۔ مرد اور عورتیں ایکدوسرے میں بُری طرح جُڑے ہوئے تھے۔ سب کے جسم آپس میں ٹکرا رہے تھے ۔یہ کو ن عورتیں اور مرد تھے جن میں حیاغیرت شرم حجاب پردہ انسانیت نام کی کو ئی چیز نہیں تھی۔ آپ نے مشتاق یوسفی کا اندرون شہر کی تنگ گلیوں والا لطیفہ سنا ہی ہو گامگر ان گلیوں سے مرد اور عورت پھر بھی بچ بچا کر بخیر و عافیت نکل جاتے ہیں۔ لیکن میگا مال کے مناظر انتہائی شرم ناک تھے۔ فاسٹ فوڈ اور برینڈز نے پاکستانیوں کی غیرت حمیت، حیا شرم، اخلاقیات، محنت، ایمانداری سب کو گہری نیند سُلا دیا ہے جب سے کرپٹ مافیا نے مالز بنائے ہیں اور یہاں بر ینڈز متعارف کروائیں ہیںپوری قوم ہی کرپٹ ہو گئی ہے۔ میں حیران ہوں کہ جدید ملبوسات، جوتے، پرس، جیولری، میک اپ کے لیے یہ لوگ اسقدر پاگل ہو جاتے ہیں کہ ان مردوں اور عورتوں میں یہ احساس بھی باقی نہیں رہا تھا کہ انکے جسم آپس میں ٹکرا رہے ہیں۔ ایسے ملبوسات پر کروڑوں بار لعنت جو مردوں کی غیرت کا جنازہ نکال دیں یا عورت کو اُسکی فطری حیا شرم سے خارج کردیں۔ انسان کی اصل خو بصورتی اور کمال صرف اور صرف اُسکے کردار میں ہے۔ میں ڈا کٹر سجاد باقر رضوی سے کبھی نہیں ملی مگر انہوں نے میری تین چار غزلوں کی اصلاح کر کے دی تھی۔ اُنکی اہلیہ میر ی بڑی بہن کی پروفیسر تھیں اور میں مسز قیصرہ رضوی کے ہاتھ اپنی غزلیں اُنھیں بجھواتی تھی۔ یہ میرے سیکنڈ ائیر کے زمانے کی بات ہے۔ مسز قیصرہ رضوی بہت ُپر کشش شخصیت کی مالک تھیں۔ مجھے ایم فِل کرتے ہوئے پتہ چلا کہ سجاد باقر رضوی نا صرف معمولی شکل صورت کے تھے بلکہ جسمانی طور پر بھی واجبی سے تھے لیکن اسکے باوجود اُنکی شخصیت میں مقناطیسی کشش تھی۔ وہ انتہائی عالم انسان تھے اور ہر دلعزیزشخصیت تھے۔ کسی سٹوڈینٹ نے پوچھا۔ سر آپ شادی کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھ جیسے بد صورت اور بد شکل آدمی سے کو ن لڑکی شادی کرے گی۔ کلاس میں ایک خو بصورت شرمیلی لڑکی قیصرہ اٹھی اور بولی کہ آپکا باطن خو بصورت، آپکادل حسین، آپکی باتیں پُرکشش اور آپکا کردار شا ندار ہے۔ اگر میری آپ سے شادی ہو جائے تو یہ میری خو ش نصیبی ہوگی۔ دونوں کی شادی ہو گئی اور انتہائی کامیاب شادی ثا بت ہوئی۔ سجاد باقر رضوی آج سارے اہلِ ادب کے ہیرو ہیں۔ اس لیے اصل چیز انسان کا کردار ہو تا ہے جو حسن و جمال کو بھی مات دے دیتا ہے۔ کردار مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے لیکن یوں لگتا ہے جیسے پاکستانیوں کے نزدیک ”مادیت“ ہی سب کچھ ہے۔ پاکستانی اپنے کرداروں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ایسے بیش قیمت ملبوسات کا کیا فا ئدہ جو ہٹے کٹے جسموں پر چڑھا لیا جائے۔ ان جسموں میں لش لش کرتا گوشت، توانا طاقتور ہڈیاں، ٹھا ٹھیں مارتا خون ہو لیکن اِس جسم میں روح نہ ہو، حیا نہ ہو، احساس نہ ہو، کردار نہ ہو تو اس سے زیادہ خو بصورت اور طاقتور جسم تو شارک اور وہیل مچھلی کا ہوتا ہے۔ طاقت اور توانائی کے لحاظ سے شیر چیتا ہاتھی ، بھیڑیا، سُور اور مگر مچھ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس حساب سے انسان اور حیوان میں کتنا فرق رہ جاتا ہے۔ حیوانوں میں احساس تو ہوتا ہے، کردار نہیں ہوتا۔ اُن میں شرم و حیا اور غیرت نہیں ہوتی۔ انسان اشرف المخلوقات تب کہلاتا ہے جب وہ بہترین کردار کا بنتا ہے۔ اُ س میں حمیت اور انسانیت ہوتی ہے۔ اخلاقیات اور تہذیب ہوتی ہے۔ جب وہ شفاف دل کا مالک ہو تا ہے۔ اپنے دماغ کو استعمال کر تا ہے۔ یہ نہیں کہ اندھی تقلید کرے یا عقیدت کے مارے کسی ایسے رشتے کے ہاتھوں کٹ پُتلی بن کر دوسرے رشتوں کا استحصال کرے۔ کو ئی کانوں میں زہر انڈیلے یا گناہ کے راستے پر چلائے اور انسان اندھا دھند اُسکی پیروی کرے۔ اندھی تقلیدوں نے اور اندھی عقیدتوں نے پاکستانیوں کو گمرا ہی اور گناہوں کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ مثلاً اس وقت پاکستان میں لاکھوں پیر فقیر عامل سنیاسی اور نام نہاد دم کرنے والے بزرگ بنے بیٹھے ہیں۔ جنھوں نے پورے پاکستان کو شِرک میں مبتلا کر دیا ہے اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ سے دولت، طاقت، اولاد اور خوشیاں مانگنا گناہِ کبیرہ ہے۔ لاکھوں عورتیں گھروں میں اپنے مردوں سے یہ کہہ کر جاتی ہیں کہ ہماری طبعیت خراب ہے، پیر صاحب سے دم کرانے جارہی ہوں۔ وہ پیر صاحب سے دم کرانے نہیں بلکہ دوسری عورتوں کا دم نکلوانے جا رہی ہوتی ہیں۔ ان پیروں فقیرو ں کے آستانوں پر جو گناہ اور بد کاریوں ہوتی ہیں۔ اب وہ تقریباً سبھی کو معلوم ہیںپھر بھی حیرت کی بات ہے کہ مرد اپنی عورتوں کو پیروں فقیروں کے پاس جانے دیتے ہیں۔ اگر یہ پیر فقیر اتنے نیک، بر گزیدہ اور پہنچے ہو ئے بزرگ ہوتے ہیں تو یہ ان عورتوں کو تعویز دھاگے کیوں دیتے ہیں اور دوسری عورتوں پر کالے علم اور جادو ٹونے کیوں کرتے ہیں تاکہ عورتیں بیماراور مختلف تکالیف اور جان لیواامرض کا شکارہو جائیں یا مر جائیں۔ وہ دوسری عورتوں پر جب بندش کا عمل کرتے ہیں تو یہ کون سا نیک کام ہوتا ہے۔ اس وقت پورے پاکستان میں لوگ جن سے حسد جلن رکھتے ہیں، اُنکا بیڑہ غرق کروانے کے لیے جادو ٹونے کرتے اور کرواتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ آج پاکستان میں بیشمار لڑکیوں کے رشتے نہیں ہوتے۔ خو شحال اور امیر لوگوں کی دولت گھٹنے لگتی ہے۔ بچے کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں یا بلکل لاغر ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی عورت خو بصورت صحت مند خوش مزاج ہو تووہ یکایک موذی امراض میں مُبتلا ہو کر مرنے والی ہو جاتی ہے۔ میاں بیوی میں ناچاقی اور ٹینشن کی بڑی وجہ بھی یہ گھناﺅنے فعل ہیں۔ پورا پاکستان ا س وقت ان عذابوں میں گھِرا ہو ا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں نا انصافی نے لوگوں کے دلوں میں غم و غصہ اور بغاوت احتجاج پیدا کردیا ہے۔ معصوم بچے خا لص دودھ کو ترس کر رہ گئے ہیں۔ پورے ملک میں کہیں بھی صاف پانی میسر نہیں ہے۔ خا لص خوراک ایک خواب ہے۔ نتیجہ کہ طور پر پو را پاکستان اِس وقت بیمار ہے۔ ملاوٹ اور آلودگی کی وجہ سے لوگوں میں شوگر، بی پی، ہیپا ٹا ئٹس ، ٹی بی، دل کے امراض اور کینسر جیسے جان لیوا امراض ہر تیسرے آدمی کو لاحق ہیں۔ میرٹ کی دھجیاں روز اُڑائی جاتی ہیں۔ اس ملک میں گرویجویٹ اور پوسٹ گرویجویٹ رکشے ٹیکسیاں چلا رہے ہیں اور جاہل ہمارے سروں پر بیٹھ کر ہماری قسمت کے فیصلے کر رہے ہیں۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں برین ڈرین ایک بحران کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے۔ نوجوان عین جوانی میں بوڑھے ہو رہے ہیں۔ نفاق، تعصب، لسانی عصبیت، فرقہ واریت، بیروزگاری، مہنگائی، ٹیکسوں کا وبال، دہشت گردی اور مستقبل کے اندیشوں نے پاکستان کو دنیا بھر میں تماشہ بنا دیا ہے۔ بد قسمتی سے سب تماشہ گر اور تماشبین بھی مجبوریوں، ضرورتوں اور اپنے لوگوں کی مصیبتوں سے کھیلتے ہیں۔ روز تماشہ لگتا ہے، رو ز تماشے بنتے ہیں اور روز تماشے لگا تے ہیں۔ ہمارا دشمن نہ بھارت نہ افغانستان، نہ امریکہ نہ اسرائیل۔ ہمارے دشمن تو ہمارے اپنے ہیں۔ ہمارے اند ر کی کدوُرتیں ہیں، ہمارے اندر کی خبا ثتیں ہیں اور ہمارے کمزور کردار ہیںجو ایک ذرا سے فا ئدے کے لیے بِک جاتے ہیں۔ امریکی پھر ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ پاکستانی تو ایک ڈالر کے لیے اپنی ماں بھی بیچ سکتے ہیں۔ گریبان میں جھانک کر دیکھیں، تماشہ تو خود پاکستانیوں نے لگا رکھا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن