ڈیجیٹل دہشتگردی اور آگاہی مہم 

خدمات۔۔۔۔۔چودھری مخدوم حسین 

امن کے بغیر کامیاب ریاست کا تصور ممکن نہیں،قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم محمد علی جناح نے ملک میں پائیدار امن قائم کرنے کیساتھ کیساتھ دنیا کو پ±رامن بنانے کے اصول وضع کئے قائد اعظم نے عالمی برادری کیساتھ امن کے فروغ کی خاطر اقوام متحدہ کے میثاق کی پاسداری چاہی تھی ،پاک فوج بانی ء پاکستان کے اسی خواب کو عملی تعبیر دینے کے لیے پوری دنیامیں قیام امن کے لیے بھرپور کردار ادا کررہی ہے۔نامساعد حالات اور مقامات پر بھی امن مشن کے لیے پاکستانی دستے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔خانہ جنگی کے شکار ممالک میں دیر پا امن کا قیام اقوام متحدہ کے امن مشنز کا سب سے بڑا مقصد ہو تا ہے۔امن مشن میں شامل پاک فوج کے دستے مختلف ممالک میں تعیناتی کے دوران فوجی اور سویلینز جنگ کے بعد کسی ملک یا خطے میں سابقہ جنگجوﺅں کے ساتھ مل کر طے پانے والے امن معاہدوں پر عملدرآمد کی نگرانی کرتے ہیں۔امن مشنز،اعتماد کی بحالی ،اختیارات کی تقسیم ، انتخابی عمل کی حمایت ، قانون کی حکمرانی کے علاوہ معاشی و معاشرتی ترقی کے لیے کسی ملک کی مدد کرتے ہیں اور رنگ،نسل،جنس، علاقہ اور مذہب کی بنیاد سے بالاتر ہو کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔دنیا میں امن کا قیام پاکستان کی ہمیشہ اولین ترجیح ہے اسی لیے پاکستان اپنی مسلح افواج کے ذریعے اقوام متحدہ کے امن مشنز میں حصہ لینے والا چھٹا بڑا ملک ہے۔ پاکستان کو اقوام متحدہ کی امن کوششوں میں معاونت کے حوالے سے 62برس گزر چکے ہیں اور پاکستان 6دہائیوں سے قیام امن کے لیے عالمی کوششوں کا حصہ رہا ہے۔دو لاکھ پاکستانی فوجی اقوام متحدہ کے امن مشنزمیں حصہ لے چکے ہیں۔امن عمل کی خاطر ان ممالک میں پاک فوج کی خدمات سے پاکستان کا وقار بلند ہوا ہے اور دنیانے امن کی بحالی کیلئے پاک فوج کے بے مثال کردار کو سراہا ہے۔دنیا جانتی ہے کہ پاک فوج نے لازوال قربانیاں دیکر دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کو فتح سے ہمکنار کیا ہے۔عالمی برداری کو دہشتگردی سے نجات دلانے کیلئے ہزاروں جوانوں نے جانیں نچھاور کی ہیں۔دنیا کو خطرناک دہشتگردوں سے بچانے والی پاک فوج آج بھی انسانیت کے ازلی دشمنوں کے خلاف برسر پیکار ہے ،دشمن بہروپ اور ہتھیار بدل کر پھر سے پاک فوج کے نشانے پر ہے ،آج دہشتگردی کے ٹولز مختلف ضرور ہیں مگر پاکستان دشمنوں کا مقصد وہی پرانا ہے کہ اسکو غیر مستحکم کرکے ختم کیا جائے مگر قائد اعظم محمد علی جناح نے شروع میں ہی فرمایا تھا کہ جب تک پاک فوج ہے پاکستان کو دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کرسکتی۔بلاشبہ پاک فوج ہرمشکل گھڑی میں پاکستانی عوام کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ،جانیں نچھاور کرکے شہریوں کو ہر مشکل سے بچایا ،دنیق میں اب سوشل میڈیا کو دہشتگردوں نے خانہ جنگی کے لئے بہترین ہتھیار بنالیا ہے ،برطانیہ کے حالیہ فسادات ،ہنگاموں اور ہلاکتوں پر سوشل میڈیا سے دہشتگردی پھیلانے والوں کو کسی حد تک لگام ڈالتے ہوئے انہیں سزائیں سنائی گئی ہیں مگر پاکستان میں عام لوگوں کے لئے "ڈیجیٹل دہشتگردی" کی اصطلاح ابھی نئی ہے اور کئی ادارے بھی اس کا لاعلمی پر شکار ہورہے ہیں تاہم پاک فوج نے اسکی بروقت نشاندہی کرکے عوام کو حقائق سے روشناس کرایا ہے۔درحقیقت ڈیجیٹل دہشتگردی کرنے والے عناصر کو غیر ملکی مددگاروں کی پشت پناہی حاصل ہے جن کا مقصد پاکستان کے عوام میں جھوٹ، جعلی خبریں پھیلانا اور پروپیگنڈا کرنا ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے عوام کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ریاستی اداروں کے خلاف سیاسی مقاصد اور مذموم ڈیجیٹل دہشت گردی کا واضح مقصد پاکستانی قوم میں مایوسی پھیلانا، قومی اداروں خصوصاً مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پھیلانا ہے۔پاکستان کے مخالفین افغانستان کو پاکستان کے اندر سکیورٹی فورسز اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔نوجوانوں کو امن اور ترقی سے دور رکھنے کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے انکے ذہنوں میں زہر گھولا جارہا ہے۔پاک فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر نے نوجوانوں کو حالات کی سنگینی سے آگاہ رکھنے کی خاطر ان سے براہ راست گفتگو کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے ،یقینی طور پر پاک فوج کے سربراہ کی جانب سے نوجوانوں کو ڈیجیٹل دہشتگردوں سے بچانے کی خاطر چلائی جانے والی آگاہی مہم کے بھی دور رس نتائج برآمد ہونگے ،تاہم اس وقت پوری قوم کو ڈیجیٹل دہشتگردی کے بارے میں کافی آگاہی مل گئی ہے اور قوم چاہتی ہے کہ جھوٹے اور جعلی پروپگنڈا کرنے والے کرداروں کو بے نقاب کرکے اب کٹہرے میں لایا جائے ،قوم اب چاہتی ہے کہ ڈیجیٹل دہشتگردی کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے انہیں عبرتناک مثال بنانے کیلئے مثالی سزائیں دی جائیں اور ان سزاﺅں پر اب عملدرآمد بھی ہونا چاہئے تاکہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں امن کا گہوارہ بنا جاسکے۔

ای پیپر دی نیشن

عالمی یوم جمہوریت اور پاکستان 

جمہوریت آزاد،مضبوط اور خوشحال وفاقی ریاست کی ضمانت ہے۔جمہوریت عوامی خواہشات کے مطابق نظام ریاست کی تشکیل کا نظام ہے۔ یہ ...